انٹرا افغان ڈائیلاگ کا مستقبل ـ عالمگیر آفریدی

434

اس سال فروری میں امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے تاریخی امن معاہدے کی ایک اہم شق کے تحت کئی ماہ کے تعطل کے بعد بالآخر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دو طرفہ بات چیت کا تحریری معاہدہ طے پا گیا ہے جس میں باہمی رضا مندی سے مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ طالبان سے اس سال فروری میں طے پانے والے امریکی معاہدے کا بنیادی مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش پر مئی 2021 تک تمام امریکی افواج کا افغانستان سے پرامن اور محفوظ انخلا تھا لہٰذا اب جب صدر ٹرمپ کو امریکی انتخابات میں شکست ہوچکی ہے تو ان کے بہت سارے دیگر فیصلوں کی طرح افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بارے میں بھی شکوک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا اصرار ہے کہ نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن افغانستان میں قیام امن کے تو یقینا حامی ہیں لیکن وہ صدر ٹرمپ کے امریکی افواج کے افغانستان سے عجلت میں انخلا کے کبھی بھی حامی نہیں رہے بلکہ وہ اس عجلت پر اپنی انتخابی مہم کے دوران تنقید کرتے رہے ہیں۔ یہاں ہمیں اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کی سی آئی اے اور پنٹاگون بھی مخالفت کرتے رہے ہیں لہٰذا اس پس منظر میں جہاں امریکا طالبان امن معاہدے کے مستقبل پر خدشات کے بادل منڈلاتے نظر آ رہے ہیں وہاں اگر اس معاہدے پر کوئی زد پڑتی ہے تو اس کا براہ راست اثر چند دن پہلے شروع ہونے والے انٹرا افغان ڈائیلاگ پر پڑنے کے خدشات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اب تک امریکا سے کامیاب مذاکرات کے بعد سب سے اہم اور نازک مرحلہ بین الافغان مذاکرات کے لیے فریقین کو راضی کیا جانا تھا۔ اس ضمن میں بداعتمادی کی پہلی اینٹ افغان حکومت کی جانب سے اس اعتراض کے ساتھ رکھی گئی تھی کہ امریکا کو افغان حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں لیکن امریکا نے اس حوالے سے افغان حکومت کو جلد ہی رام کرلیا تھا البتہ جب طے شدہ امریکا طالبان معاہدے کے تحت افغان حکومت کے ہاں قید طالبان کی رہائی کا موقع آیا تو افغان حکومت نے اس موقع پر بھی امریکا طالبان معاہدہ سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن افغان حکومت چونکہ اپنی حقیقت سے بخوبی واقف تھی اس لیے اسے جلد ہی نہ صرف تمام طالبان قیدی رہا کرنے پڑ گئے تھے بلکہ وہ طالبان کے ساتھ مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ کے سخت ایشو پر بھی لچک ظاہر کرنے پر رضامند ہوگئی ہے۔
دراصل دوحہ میں گزشتہ دنوں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مستقبل کی بات چیت کے لیے طے پانے والے ایجنڈے پر فریقین کی رضامندی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یاد رہے کہ ستمبر میں شروع ہونے والے یہ مذاکرات ایجنڈے پر اتفاق رائے کے حوالے سے سست روی کا شکار تھے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ افغانستان کی قومی مفاہمتی
کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ نے بھی اس پیش رفت کو ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ افغان امور سے متعلق امریکی صدر کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بھی اس کامیابی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک اہم سنگ میل قرار دیا ہے۔ بقول ان کے یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ مذاکرات کرنے والے فریقین سخت معاملات پر اتفاق رائے کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ یہ اہم امور پر بات چیت شروع کرنے لیے آگے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ جب کہ اس سے قبل سبکدوش ہونے والے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے 21 نومبر کو دوحہ میں طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات کاروں سے ملاقات کے دوران فریقین کے درمیان جلد مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ پومپیو نے فریقین کے جانب سے کیے گئے اعلان پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سیاسی روڈ میپ اور جنگ بندی کی طرف تیزی سے پیش رفت ہی وہ چیز ہے جو افغانستان کے عوام کسی بھی چیز سے زیادہ چاہتے ہیں۔
دوسری جانب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے فروری میں طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بعد افغانستان بھر میں اپنے 10 اڈوں کو بند کردیا ہے۔ اخبار نے امریکی اور افغان حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اڈوں کا بند ہونا معاہدے میں بیان کردہ امریکی فوجیوں کے افغانستان سے مکمل انخلا کا حصہ ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ کچھ فوجی اڈوں کو مکمل طور پر افغان سیکورٹی فورسز کے حوالے کردیا گیا ہے جب کہ دیگر اڈوں کو خالی تو کردیا گیا ہے لیکن انہیں اس حالت میں چھوڑا گیا ہے کہ مستقبل میں ضرورت پڑنے پر وہ ان کا دوبارہ بھی قبضہ حاصل کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب جب سے طالبان امریکا معاہدہ طے پایا ہے تب سے ملک کے طول وعرض میں طالبان کی سرکاری سیکورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی نظر آ رہی ہے۔ دریں اثناء افغانستان میں فوجی کمانڈو بیس اور صوبائی کونسل کے سربراہ کے قافلے پر ہونے والے 2 خود کش حملوں میں مجموعی طور پر 34 افراد ہلاک اور 36 زخمی ہوگئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق صوبہ غزنی کے نواح میں واقع قلعہ جوز میں فوجی اڈے میں بارود سے بھری ملٹری گاڑی داخل ہوئی اور رہائشی کمروں کے قریب زوردار دھماکے سے پھٹ گئی جس کے نتیجے میں کم از کم 31کمانڈوز ہلاک اور 24 زخمی ہوئے ہیں، افغانستان کے مشرقی حصے غزنی میں ہونے والا خودکش حملہ حالیہ چند ماہ کے دوران افغان سیکورٹی فورسز پر خونریز ترین حملہ تصور کیا جارہا ہے۔ جبکہ دوسرا حملہ افغانستان کے جنوبی حصے میں ہوا، جہاں ایک خودکش بمبار نے صوبہ زابل کے صوبائی سربراہ کی گاڑیوں کے قافلے کو نشانہ بنایا، اس حملے میں تین افراد مارے گئے جبکہ 12دیگر زخمی ہوئے۔ یہ حملے ایک ایسے موقع پر کیے گئے ہیں جب چند روز قبل ہی افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان قطر میں پہلی مرتبہ براہ راست بات چیت ہوئی جس کا مقصد ملک میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کی کوشش کرنا ہے۔