امریکا چین سرد جنگ بڑے تصادم میں تبدیل ہوئی تو میدان جنگ پاکستان ہوگا

1714

کراچی (رپورٹ :محمد علی فاروق) چین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے ۔سر د جنگ کا تصور اب بہت حد تک ختم ہوتا جا رہا ہے ، اب تودونوں ممالک کے درمیان واضح گرم جنگ نظر آرہی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ گرم جنگ میں تبدیل ہوئی تو میدان جنگ پاکستان ہوگا۔امریکا ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے چین کی سرگرمیوں کو محدود کیا جاسکے۔ امریکا یقینی طور پر چین میں خلفشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گالیکن چین کو بھی معلوم ہے کہ اس نے گیند کو کس طرح کھیلنا ہے۔امریکا اور چین دونوں ممالک بحرالکاہل میں بالا دستی کے حصول کے لیے کوشاںہیںاور ایک دوسرے سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن چین کو عالمی فورمز پر فعال دیکھنا چاہتے ہیں اگر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے تو سرد جنگ کا خطرہ ٹل جائے گا ۔ان خیالات کا اظہار پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ائر چیف مارشل (ر)سہیل امان ،دفتر خارجہ کے سابق ترجمان عبدالباسط ،معروف دانشور اوریا مقبول جان ،جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما آصف لقمان قاضی اور بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹرہما بقائی نے روزنامہ جسارت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ائر چیف مارشل سہیل امان نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے ۔امریکا چین کو معاشی طاقت کے طور پر ابھرتا دیکھ رہا ہے اور وہ یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ سی پیک منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے ،جو اس کے لیے پریشان کن صورت حال ہے ۔وہ ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے چین کی سرگرمیوں کو محدود کیا جاسکے ۔انہوںنے کہا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا 25سال تک اکیلا دنیا پرراج کرتا رہا ہے اور اس دور میں مختلف ممالک کے درمیان ہونے والی جنگوں میں اس کا کردار رہا ۔اس دوران چین نے سمجھداری کے ساتھ اپنی معیشت کو مضبوط کیا اور اب یہ طے ہے کہ چین آج ایک معاشی طاقت ہے ۔سابق ائر چیف نے کہا کہ امریکا کے انسٹیٹیوشن میں گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ پڑھا یا جارہا تھا کہ چین کی ترقی کو کس طرح روکا جائے لیکن چین نے دنیا کے سامنے یہ بات ثابت کردی ہے کہ وہ ہر سطح پر ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے ۔دفتر خارجہ کے سابق ترجمان عبدالباسط نے کہا کہ سرد جنگ کے دور سے حالات کافی بدل چکے ہیں۔ امریکا اور چین دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ہوگی لیکن صورتحال سرد جنگ جیسی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس بات میں شبہ نہیں ہے کہ امریکا چین کو اپنے لیے خطرہ سمجھ رہا ہے اس حوالے سے چین کو اپنی ترقی پر توجہ مرکوز رکھنے اور امریکا کو پیچھے چھوڑنے کے لیے کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا یقینی طور پر چین میں خلفشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گالیکن چین کو بھی معلوم ہے کہ اس نے گیند کو کس طرح کھیلنا ہے اور صورتحال کو کس خاص طریقے سے آگے بڑھانا ہے۔ چین امریکا کے ساتھ براہ راست تصادم نہیں چاہتا ہے۔معروف دانشور اوریا مقبول جان نے کہا کہ سرد جنگ کا تصور اب بہت حد تک ختم ہوتا جا رہا ہے ، اب تو واضح گرم جنگ نظر آرہی ہے نومبر 2019ء میں پینٹا گون نے ایک کمانڈترتیب دی ہے ، اس میں 3لاکھ 70ہزار میرینر شامل کیے گئے ہیں ، اس کا مقصد چین کو کسی حد تک روکنا ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ امریکا نے اپنے 3 بحری بیڑے اس علاقے میںرکھے ہوئے ہیں جبکہ 15ممالک کا ایک اتحاد بھی چین کے خلاف بنا یا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ یہ مسئلہ سرد جنگ سے حل ہوگا ، یہ بات تو براہ راست گرم جنگ کی طرف جارہی ہے، امریکا کی گزشتہ ایک سال کی سر گرمیاں دیکھی جائیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ آگے کیا ہونے جارہاہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکا سرد جنگ میں رہا تو چائنا تو اس سے آگے نکل جائے گا۔انہوںنے کہا کہ سی پیک منصوبہ ایک بار چل گیا تو پھر چین امریکا سے آگے نکلنے کی پوزیشن میں ہوگا ۔چین نے ماضی میں 100ممالک کی کانفرنس بلا ئی تھی ، جس میں تمام بڑے ممالک شامل ہوئے تھے واحد امریکا شامل نہیں ہوا تھا ۔ انہوںنے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ’’کوئک وار‘‘ کا خدشہ ہے ، جبکہ امریکا کی معیشت بھی اس وقت ہی مستحکم ہوگی جب بڑی جنگ کا آغاز ہو گاکیونکہ سرد جنگ امریکا کو کو ئی فاعدہ نہیں پہنچا ئے گی۔اوریا مقبول جان نے کہا کہ اس تمام صورت حال میں امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ اگر گرم جنگ میں تبدیل ہوئی تو میدان جنگ پاکستان ہوگا ،کیونکہ یہ جنگ سمندر ی ہوگی۔ امریکا نے اگر ملائیشیا اورانڈونیشیاکے علاقے میں جو ڈیڑھ 2 کلو میٹر کا سمندری علاقہ ہے جسے اسٹیٹ آف بلانکا کہا جاتا ہے وہاں اگر اپنا ایک بھی جہاز کھڑا کردیا تو وہ راستہ بآسانی روکا جاسکتا ہے لیکن سی پیک کو روکنے کے لیے بھارت اور چین کی جنگ اہمیت رکھتی ہے۔ بھارت چین کے ساتھ کسی بھی طرح جنگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ، اس کی بڑی وجہ بھارت کے عوام ہیں جو کہ کسی بھی طرح چین سے لڑنے کے لیے تیار نہیںہیں جبکہ بھارتی عوام پاکستان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر امریکا بھارت کے ذریعے پاکستان پر جنگ مسلط کرے گا جس کے نتیجے میں چین اپنے تحفظ کے لیے بھارت پر حملہ آور ہوگا اور پھر اس جنگ میں امریکا سمیت دیگر ممالک کود پڑیں گے۔جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما آصف لقمان قاضی نے کہا کہ امریکا اور چین کے درمیان گزشتہ چند سالوں کے دوران بین الا قوامی منظر نامے میں بالا دستی کے حصول کی کشمکش جاری ہے ، دونوں ممالک اس وقت دنیا کی 2 سب سے بڑی معاشی قوتیں ہیں ، 90ء کی دہائی میں سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد امریکی حکمرانوں اور مفکرین نے مکمل امریکی بالا دستی کا خواب دیکھا تھا لیکن گزشتہ ایک دہائی میں چین نے معاشی قوت کے حصول کے ساتھ اپنی فوجی قوت میں بھی بے تحاشہ اضافہ کیا ہے اور وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں کرہ ارض سے بہت دور خلا ؤں میں پہنچ گیا جس کے نتیجے میں چین کی بڑی بڑی سیٹلائٹ اور الیکٹرونک کمپنیاں منظر نامے پر ابھری ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اور چین دونوں ممالک بحرالکاہل میں بالا دستی کے حصول کے لیے کو شاںہیںاور ایک دوسرے سے خطرہ محسوس کرتے ہیں،امریکا چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو بھی اپنے لیے مستقبل کا اسٹریٹجک چیلنج سمجھتا ہے،امریکا اور چین کے تعلقات تجارتی مسابقت ، ایک دوسرے پر پابندیاں لگانے اور الزامات سے بڑھ کر اب ایک سرد جنگ کی کیفیت میں بدل چکے ہیں اور دونوںممالک کو بین الاقوامی منظر نامے میں اتحادیوں کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔انہوںنے کہا کہ حالیہ سرد جنگ ماضی کی امریکا اور سوویت یونین سرد جنگ سے کافی مختلف ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا اب گلوبل ویلیج بن چکی ہے ۔خود امریکا اور چین کی معیشت ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک مکمل طور پر ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوسکتے ۔ا نہوں نے کہا کہ معاشی تقاضے امریکا اور چین کے تعلقات کو کسی حدتک معمول پر رکھنے کے لیے مجبور کرتے رہیں گے ، چھوٹے او ر کم طاقت ور ممالک کے لیے یہ صورت حال مفید ثابت ہوسکتی ہے اور چھوٹے ممالک دونوںبڑی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم رکھ کر اپنے لیے معاشی امکا نات پیدا کر سکتے ہیں ۔ڈاکٹرہما بقائی نے کہا کہ ٹرمپ کے دور میں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ چین اور امریکا سرد جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں اور جنوبی ایشیا میں ایک ایسی جنگ چھڑ جائے گی جو سمندر میں لڑی جائے گی تاہم امید ہے کہ جوبائیڈن کے آنے کے بعد حالات تبدیل ہوںگے اور دونوں ممالک کے درمیان تلخی معاشی مقابلے میں تبدیل ہوجائے گی ۔نومنتخب امریکی جوبائیڈن چین کو عالمی فورمز پر فعال دیکھنا چاہتے ہیں اگر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے تو سرد جنگ کا خطرہ ٹل جائے گا ۔انہوںنے کہا کہ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ چین معاشی قوت تو ضرور ہے لیکن اسے فی الوقت سپرپاور نہیں کہا جاسکتا ہے ۔اس کی معیشت امریکا کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔امریکا میں بہت بڑے طبقے کی سوچ ہے کہ چین پر انحصار کم کیا جائے ۔یورپ سینٹرل اور افغانستان میں چین کا اہم کردار ہے ۔چین کے لیے مسائل پیدا کیے گئے تو جارحانہ حکمت عملی اختیار کرلے گا ۔اس تلخی کو سفارت کار ی کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے دونوں ممالک کے درمیان بے شک دوستی نہ ہو لیکن حالات بہتر ضرور ہوںگے۔