اسلامی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ ’’تقدیر‘‘ کا ہے۔ وہ یہ کہ اللہ تعالٰی نے کائنات کے وجود میں آنے سے لے کر اس کے فنا ہونے (قیامت) تک ہر چیز کے بارے میں طے کر دیا ہے کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟ اور ہر فرد کے بارے میں طے کر دیا ہے کہ وہ کس صورتِ حال سے دوچار ہوگا ؟ اسی طرح ہر شخص اس دنیا میں ایک متعین عمر لے کر آتا ہے، نہ اس سے ایک لمحہ پہلے اس کی موت آسکتی ہے اور نہ ایک لمحہ بعد۔
لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں دو چیزوں کا استثناء ہے: ایک ہے دعا اور دوسری صلہ رحمی۔ دعا سے تقدیر بدل سکتی ہے اور صلہ رحمی سے عمر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
سیدنا سلمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تقدیر کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی، سوائے دعا کے اور عمر میں کسی چیز سے اضافہ نہیں ہوسکتا، سوائے صلہ رحمی کے‘‘۔ (ترمذی : 2139)
شارحینِ حدیث نے بتایا ہے کہ اس حدیث میں تقدیر کا ٹل جانا اور عمر میں اضافہ ہونا دونوں مجازی معنی میں ہوسکتے ہیں اور ان کا حقیقی مفہوم بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔ جامع ترمذی کی شرح ’تحفۃ الاحوذی‘ میں اس حدیث کی درج ذیل تشریح کی گئی ہے:
’’اس حدیث میں ’تقدیر‘ مجازی معنی میں ہے۔ اس سے مراد وہ تکالیف، مصائب اور پریشانیاں ہیں جن میں مبتلا ہونے کا آدمی کو اندیشہ رہتا ہے۔ مثلاً وہ بیمار ہوگا یا نہیں؟ اور بیمار ہونے کی صورت میں اسے شفا ملے گی یا نہیں؟ یہ اللہ تعالی کی طرف سے طے شدہ ہے، لیکن پھر بھی اسے علاج معالجہ کرنے اور اللہ سے صحت کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ کے عہدِ خلافت میں شام میں طاعون پھیلا۔ سیدنا عمر وہاں جا رہے تھے، راستے میں انھیں اس کی خبر ملی تو واپس ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس موقع پر سیدنا ابو عبیدہؓ نے عرض کیا: ’’اے امیر المومنین! کیا اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں؟‘‘ سیدنا عمرؓ نے اس کا بڑا حکیمانہ جواب دیا۔ انھوں نے فرمایا: ’’اے ابو عبیدہ! ہاں، ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف جا رہے ہیں‘‘۔ یا اس حدیث میں ’تقدیر‘ کا حقیقی معنی بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں تقدیر کو ٹالنے سے مراد اسے برداشت کرنا، اسے گوارا کرنا اور اس پر راضی برضا رہنا ہوگا۔ اسی طرح اس حدیث میں عمر میں اضافہ یا تو حقیقی معنی میں ہے۔ ایسا ’تقدیر معلّق‘ کی صورت میں ہوتا ہے، مثلاً اگر اس شخص نے فلاں کام نہیں کیا تو اس کی اتنی عمر ہوگی اور اگر فلاں کام کیا تو اس کی عمر میں اتنا اضافہ ہوجائے گا۔ یا عمر میں اضافہ اس حدیث میں مجازی معنی میں ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ متعیّن عمر ہی میں اللہ تعالٰی برکت عطا فرمائے گا اور اس میں آدمی کو اتنے نیک اعمال کی توفیق ہوگی جتنے دوسرے لوگ اس سے زیادہ عمر میں کر سکیں گے‘‘۔
بہر حال اس حدیث کی رو سے ہمیں دو چیزوں کا اہتمام کرنا چاہیے: ایک دعا اور دوسرے رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک۔ ہم میں سے کون ہوگا جس کی یہ خواہش نہ ہو کہ اسے تکالیف اور پریشانیوں سے نجات مل جائے اور اس کی عمر میں اضافہ ہو، پھر اسے ان کاموں کا التزام کرنا چاہیے جن سے اس کی یہ توقعات پوری ہوں اور یہ مرادیں بَر آئیں۔