پچاس سال قبل7 دسمبر کو ملک میں پہلے عام انتخابات ہوئے، اور نتائج تسلیم نہیںکیے گئے، یہیں سے ہمارے قومی المیے نے جنم لیا، مینڈیٹ مینڈیٹ کی آج بھی بحث جاری ہے، عوام کے ووٹ سے ملنے والا یہ مینڈیٹ کس لیے ہوتا ہے؟ ملک بچانے کے لیے یا توڑنے کے لیے؟ ہمارا عمومی رویہ بن چکا ہے کہ جب بھی کسی سے، کوئی بھی سوال کیا جائے تو جواب دینے کے بجائے بات کا رخ موڑنے کے لیے رد عمل میں اُلٹا سوال داغ دیا جاتا ہے۔ قومی زندگی میں ہر سطح پر یہ رویہ ہمیں مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ ملک میں حق حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس ہے، جو اللہ کے نائب کی حیثیت سے بطور حکمران اپنے فرائض انجام دیں گے۔ ملک میں آئین بنے آج 47 سال ہوگئے ہیں، بھٹو دور میں چھ ترامیم لائی گئیں، پھر ضیاء الحق دور میں آٹھویں ترمیم غیر جماعتی اسمبلی سے منظورکرائی گئی، اس کے بعد بھی ہر منتخب حکومت نے کوشش کی کہ ایسی ترامیم لائی جائیں جن سے ان کے اقتدار کو استحکام مل جائے، آئین میں تیرہویں ترمیم لائی گئی جس سے صدر کے اختیارات محدود کیے گئے، پھر چودہویں ترمیم لائی گئی کہ ارکان اسمبلی قابو میں رہیں، ان دنوں اٹھارویں آئینی ترمیم کا بہت ذکر ملتا ہے، یہ ترمیم ایسی تھی کہ آئینی ترامیم مرتب کرنے والی کمیٹی کے ہر رکن کو صدارتی تمغہ دیا گیا، پھر اس ترمیم میں خلا نظر آیا تو اسے دور کرنے کے لیے انیسویں اور بیسویں ترمیم لائی گئیں۔
ملک کے پہلے عام انتخابات اور اس کے نتائج آج تک ہمیں یاد ہیں، یہ ہماری سیاسی تاریخ کے تلخ حقائق ہیں، اس وقت چوبیس سیاسی جماعتیں 1970 کے انتخابی میدان میں اُتر ی تھیں، انتخابی مہم اس وقت ہر پارٹی کے پاس اپنا منشور اور پروگرام تھا لیکن دو جماعتیں، عوامی لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی تو ایسی تھیں جیسے انتخابی قلعہ فتح کرنے نکلی تھیں ایک جانب بھٹو تھے اور دوسری جانب مجیب، دونوں ہی جوان تھے، جنوری 1970 کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی 42 ویں سالگرہ کے دن نشتر پارک، کراچی میں ایک جلسہ عام سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا اور عوام سے کہا کہ وہ ان کی ’گول میز کانفرنس‘ ہیں، اس کے بعد وہ پنجاب آئے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ کیا اس کے بعد وہ خیبر پختون خوا (اس وقت سرحد) میں داخل ہوئے، پیپلز پارٹی نے کل 138 نشستوں میں 81 نشستیں حاصل کیں جن میں پنجاب کی 82 نشستوں سے 62 اور سندھ کی 27 نشستوں میں سے 18 نشستیں شامل تھیں، مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے اپنے چھ نکات کو انتخابی منشور کا حصہ بنایا تھا، یہ ایک طویل انتخابی مہم تھی۔ 7 دسمبر کو ہونے والے انتخابات کے لیے قومی اسمبلی کے لیے نامزدگی کے کاغذات 14 اکتوبر کو اور اگلے دن صوبائی اسمبلیوں کے لیے جمع کروائے گئے تھے، شیخ مجیب نے مغربی پاکستان میں اپنے متعدد امیدوار کھڑے کیے لیکن پیپلزپارٹی نے مشرقی پاکستان میں اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا مغربی پاکستان میں قومی اسمبلی کی138 نشستوں کے لیے1070 امیدواروں نے کاغذات جمع کروائے، مشرقی پاکستان سے162 نشستوں کے لیے 870 امیدوار میدان میں اُترے تھے۔ عوامی لیگ نے ہر حلقے میں اپنا امیدوار کھڑا یوں اس کے 162 امیدوار تھے۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اتنی کامیابی حاصل نہیں کرسکی جیسی مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کو ملی تھی، عوامی لیگ مغربی پاکستان میں کوئی امیدوار کھڑا نہ کرکے بھی بڑی پارلیمانی جماعت کے طور پر سامنے آئی انتخابی نتائج کے بعد جنرل یحییٰ خان نے پارٹی کے دونوں رہنماؤں کو مبارکباد کے پیغامات بھیجے، یحییٰ خان کے لیے انتخابی نتائج خوش گوار نہیں تھے کہ انہیں ایک جائزے کی روشنی میں بتایا گیا تھا کہ کوئی بھی پارٹی واضح برتری حاصل نہیں کرسکے گی لہٰذا مخلوط حکومت بنے گی، یہ منظر نامہ جنرل یحییٰ خان کی اپنی اہمیت بڑھا رہا تھا مگر جب نتائج آئے تو سارے اندازے غلط ہوگئے ایک جانب پیپلزپارٹی اور دوسری جانب عوامی لیگ کا زور تھا، 300 کے ایوان میں جماعت اسلامی، جے یو آئی اور دیگر جماعتیں صرف 37 نشستوں پر کامیاب ہوسکیں، ان نتائج کے بعد صورتحال یہ تھی کہ مجیب الرحمن نے ڈھاکا میں بیٹھ کرآئندہ کی حکومت کی ترجیحات پر حکمت عملی بنانا شروع کی، بھٹو نے جواب دیا کہ ان کی پارٹی کے تعاون کے بغیر کوئی آئین وضع کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مرکز میں حکومت چل سکتی ہے، اسی دوران یحییٰ خان نے وعدہ کیا کہ 120 دن کے اندر آئین تیار ہوجائے گا یا اسمبلیاں ختم کردی جائیں گی، اور 17 دسمبر 1970 کو مجیب نے اعلان کیا کہ بنگلا دیش بننے سے کوئی نہیں روک سکتا یحییٰ 28 دسمبر کو کراچی آئے جہاں انہوں نے بھٹو سے ملاقات کی، اگلے ہی دن یہ اعلان جاری کیا گیا کہ اسمبلی کا پہلا اجلاس ڈھاکا میں ہوگا۔
نتائج کے بعد بھٹو اور مجیب دونوں رہنماؤں نے سخت موقف اختیار کرلیا، مجیب نے کہا کہ جس کو ملنا ہے وہ ڈھاکا آئے، بھٹو نے کہا کہ جو اجلاس کے لیے ڈھاکا گیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، مجیب نے 3 جنوری کو رمنا ریس کورس گراؤنڈ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا، جس میں تمام منتخب اراکین نے بنگلا دیش سے کم پر کوئی بات نہیں کی قسم کھائی، یحییٰ خان 12 جنوری 1971 کو ڈھاکا پہنچے انہوں نے شیخ مجیب سے ملاقات کی جب وہ کراچی واپس آئے تو کہا کہ مجیب اگلے وزیر اعظم ہوں گے لیکن وہ خود نہیں ہوں گے، جنرل یحییٰ خان بھٹو سے ملاقات کے لیے لاڑکانہ گئے انہیں ڈھاکا کا دورہ کرنے اور مجیب سے بات کرنے کا مشورہ دیا، بھٹو نے انہیں چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام سمیت متعدد آپشن دیے… آپشن کیا تھے یہی کہ حکومت ملنی چاہیے… دوسری جانب بھی آگ تھی برابر لگی ہوئی… لیکن کچھ لوگ یہ بھی تھے کہ جن کے لیے صرف پاکستان ہی آپشن تھا اور ہے، جنہوں نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کا آپشن اپنے لیے منتخب کیا وہ ملا قادر، مطیع الرحمن، میر قاسم، صلاح الدین وہ سب اپنی منزل پاچکے ہیں اور جنہوں نے اس وقت اپنے لیے ہر قیمت پر صرف حکومت کا آپشن لیا تھا، وہ آج حکومت میں ہیں یا نہیں یہ سب خوار ہو رہے ہیں۔