اسلام کے بنیادی پس منظر کو سمجھنے اور تصور میں جگہ دینے کیلئے روشنی کی جس مقدار کی ضرورت ہے وہ یقیناً ایسے ماحول میں جو سرتاپا غیر اسلامی اور قسم قسم کی ضلالت اور گمراہیوں سے ترکیب پایا ہوا ہو، کسی ایک فرد کو پوری طرح میسر نہیں آسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد کی پوری ایک جماعت موجود ہو جو اپنی جماعتی حیثیت سے پہلے کسی ایک جگہ کو اپنا مرکز بنائے اور پھر تحقیق و تفکر اور دعوت و تبلیغ کا کام شروع کردے۔ اس طرح یقینی طور پر متحد الفکر افراد کی ایک جماعت پہلے موجود ہوجائے گی جو اپنے افراد کی عملی کوتاہیوں اور ان کی فکری لغزشوں کے مضر اثرات و نتائج سے بچ کر اپنی راہ نکالے گی اور پھر ملت کے اس طبقہ یا حصہ کو متاثر کرنا شروع کردے گی جو اب تک بےخبرانہ طور پر یا قصداً ضلالت و گمراہی کی زندگی بسر کررہا تھا۔
ہماری ملت کی موجودہ حالت افتراق و انشقاق کی ہے جس میں ملت کے مختلف طبقات و عناصر اپنی افرادی و فرقائی زندگی بسر کرنے کے خوگر ہوچکے ہیں اور اس ایک کیفیت نے ان میں ایک دوسرے کے برخلاف انانیت و سرکشی کے مرض کو عام کر رکھا ہے۔ اس سبب سے جب کوئی دردمند اور مخلص امتی جو اپنی ملت کی دینی اصلاح کیلئے یک تنہا میدان میں آتا ہے تو یہ افراد اس سے متاثر ہونے کے بجائے اس کے دشمن و رقیب بن جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ بےچارہ دب کر خاموش بیٹھ جاتا ہے اور یا پھر جھنجلا کر اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے اور فریقانہ وعصبیت کے گرداب میں ہلاک ہوجاتا ہے۔
ایسے تنہا شخص کو ایک اور عارضہ بھی پیش آتا ہے اور وہ اس کے نفس سے متعلق ہوتا ہے۔ اس کے نفس کی ہواوہوس اسے دھوکا دیتی ہے۔ وہ شروع میں ہی اپنے آپ کو کامل سمجھ لیتا ہے اور اس لیے بجائے اپنے جیسے کامل انسانوں کی جستجو کرنے کے وہ اپنے گرد محض کارکنوں کو تلاش کرتا ہے اور جب اسے ایسے دو چار کارکن مل جاتے ہیں تو وہ انہی کو اپنی جماعت کی متاع و بنیاد سمجھ کر کام شروع کردیتا ہے۔ اس آغاز کے بعد اسے پتہ چلتا ہے کہ اسے محض کارکن نہیں بلکہ اپنے ہی جیسے ہم رتبہ و ہم پایہ افراد کی ضرورت تھی۔ لیکن جب وہ احساس کی اس منزل پر انہیں ڈھونڈنے بیٹھتا ہے تو بوجہ اپنی ناواقفیت و بےخبری کے انہیں پا نہیں سکتا اور اگر کوئی سرراہے اسے مل بھی جائے تو وہ شک و تذبذب کی نگاہوں سے اسے دیکھتا ہوا ایک طرف ہٹ جاتا ہےاور اس کی معیت سے صاف انکار کردیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص اپنی کوششوں میں ناکام رہتا ہےاور اس ناکامی سے اپنی ابتدائی غلطی پر متنبہ ہونے کے بجائے وہ اسے افراد متعلقہ کی کم فہمی یا ان کے شخصی بغض و عناد ہر محمول کرتا ہےاور اپنی طبیعت کے غصہ سے پیچ و تاب کھا کر اپنے حواریوں کی طرف واپس لوٹتا ہے اور انہیں فرقہ واریت و جماعتی تعصب کا ہلاکت آفریں درس دینے میں ہمیشہ کیلئے مصروف و مشغول ہوجاتا ہے۔
پس تشتت و انتشار کے اس ماحول کے اندر کسی ایک فرد کیلئے خواہ وہ ایک بڑی حد تک کامل ہی کیوں نہ ہو، یہ ممکن نہیں کہ وہ ملت کے بیشتر و کثیر حصہ کو اپنے وجود سے متاثر کرسکے جب تک خود اس جیسے ہم رتبہ ہم پایہ افراد اس کے گرد جمع نہ ہوجائیں اور انقلاب برپا کرنے کا یہ طریقہ اسوہ رسول کے عین مطابق ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو روئے زمین پر ایک بھی شخص مسلم نہ تھا۔ آپ نے اپنی دعوت دنیا کے سامنے پیش کی اور آہستہ آہستہ متفرق طور پر ایک ایک ، دو دو، چار چار آدمی مسلمان ہوتے چلے گئے۔ اگرچہ پہاڑ سے زیادہ مضبوط ایمان رکھتے تھےمگر کفار کے درمیان گھرے ہوئے تھے۔ بے بس اور کمزور تھے اس لیے اپنے ماحول سے لڑتے لڑتے ان کے بازو شل ہوجاتے تھے اور پھر بھی وہ ان حالات کو نہ بدل سکتے تھے۔ 13 سال تک وہ اسی طرح جدوجہد کرتے رہے اور اس مدت میں سرفروش اہل ایماں کی مٹھی بھر جماعت آپؐ نے فراہم کرلی اور یہی وہ وقت تھا جب اللہ نے نبیؐ کو دوسری تدبیر کی ہدایت فرمائی کہ ان سرفروشوں کو لے کر غیر اسلامی ماحول سے نکل جائیں۔ ایک جگہ ان کو جمع کرکے اسلامی ماحول پیدا کریں جہاں اسلامی زندگی کا پورا پروگرام نافذ ہو، ایک مرکز بنائیں جہاں مسلمانوں میں اجتماعی طاقت پیدا ہو، ایک ایسا پاور ہاؤس بنادیں جس میں تمام برقی طاقت جمع ہوجائے اور پھر ایک منضبط طریقہ سے وہ پھیلنی شروع ہویہاں تک کہ زمین کا گوشہ گوشہ اس سے منور ہوجائے۔
مدینہ طیبہ کی جانب آپؐ کی ہجرت اسی غرض کیلئے تھی۔ تمام مسلمان جو عرب کے مختلف قبیلوں میں منتشر تھے، ان سب کو حکم دیا گیااس مرکز پر جمع ہوجائیں۔ یہاں اسلام کو عملی صورت میں نافذ کرکے بتایا گیا۔ اس پاک ماحول میں پوری جماعت کو اسلامی زندگی کی ایسی تربیت دی گئی کہ اس جماعت کا ہر شخص ایک چلتا پھرتا اسلام بن گیا جسے دیکھ لینا ہی یہ معلوم کرنے کیلئے کافی تھا کہ اسلام کیا ہے اور کس لیے آیا ہے؟۔ اُن پر اللہ کا رنگ(صبغۃاللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ) )البقرہ: 138) اتنا چڑھایا گیا کہ وہ جدھر جائیں دوسروں کا رنگ قبول کرنے کے بجائے اپنا رنگ دوسروں پر چڑھا دیں۔ ان میں کریکٹر کی اتنی طاقت پیدا کی گئی کہ وہ کسی سے مغلوب نہ ہوں او ر جو ان کے مقابلے میں آئےان سے مغلوب ہوکر رہ جائے۔ان کی رگ رگ میں اسلامی زندگی کا نصب العین اس طرح پیوست کردیا گیا کہ زندگی کے ہر عمل میں وہ مقدم ہو اور باقی تمام دنیوی اغراض ثانوی درجہ میں ہوں۔ ان کو تعلیم و تربیت دونوں کے ذریعے سے اس قابل بنادیا گیا کہ جہاں جائیں زندگی کے اسی پروگرام کو نافذ کرکے چھوڑیں جو قرآن و سنت نے نہیں دیا ہے اور ہر قسم کے بگڑے ہوئے حالات کو منقلب کرکے اسی کے مطابق ڈھال لیں۔
بحوالہ حیاتِ سدید