لاڑکانہ،تجاوزات کیخلاف آپریشن کے عدالتی احکامات ہوا میں اڑا دیے گئے

325

لاڑکانہ (نمائندہ جسارت) محکمہ آبپاشی کی اراضی پر تجاویزات آپریشن متعلقہ افسران نے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات ہوا میں اڑا دیے، رجسٹرڈ مالکان کو بھی پراپرٹیز خالی کرنے کی وارننگ، مرجان کنسٹرکشن گروپ کا متعلقہ محکموں اور افسران کیخلاف عدالت عظمیٰ تک جانے کا فیصلہ۔ مرجان کنسٹرکشن گروپ کے ڈاریکٹر علی چانڈیو کا کہنا ہے کہ محکمہ آبپاشی لاڑکانہ کا ایگزیکٹو انجینئر احمد نواز چانڈیو سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رجسٹرڈ نجی اراضی کو بھی تجاوزات میں شامل کرتے ہوئے مسمار کرنے کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں، جس پر مقامی انتظامیہ خاموش تماشائی ہے۔ علی چانڈیو کا کہنا تھا کہ مرجان کنسٹرکشن گروپ نے رائس کینال لاہوری محلہ کے قریب اراضی کروڑوں میں خریدی جس پر ہوٹل برج المرجان تعمیر کیا گیا، تاہم اراضی کی خریداری اور تعمیرات پر کروڑوں روپے کی لاگت آئی۔ مرجان کنسٹرکشن گروپ نے ہوٹل بنانے سے قبل تمام نقشے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے منظور کروائے جبکہ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ سمیت ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے متعلقہ افسران نے تمام طرح کی منظوریاں دیں۔ ہوٹلز مالکان نے تمام دستاویزات کے لیے لاکھوں روپے کے سرکاری چالان جمع کروائے جبکہ متعلقہ آبپاشی اراضی کی 99 سال کی لیز خود سیکرٹری آبپاشی نے ایگزیکٹو انجینئر رائس کینال کی اپروول سے 1987ء میں جاری کی، آج برج المرجان ہوٹل پر سوئی سدرن اور سیپکو کی تمام اپروولز کے بعد کنکشنز بھی موجود ہیں سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے واضح احکامات ہیں کہ تمام کمرشل تجاوزات کو مسمار کیا جائے جوکہ غیر قانونی، غیر مصدقہ اور بغیر اجازت کے بنائی گئی ہوں جبکہ عدالت عالیہ کے واضح احکامات ہیں کہ جن کے پاس دستاویزات ہیں وہ متعلقہ عدالتوں سے رجوع کریں۔ برج المرجان کی تمام قانونی دستاویزات مکمل ہیں اور عدالتوں میں بھی کیسز زیر سماعت ہیں، تاہم مرجان کنسٹرکشن گروپ عدالت عظمیٰ تک اپنے حق کا دفاع کرے گا اور کسی بھی قسم کا غیر قانونی قدم اٹھانے والے افسران کیخلاف بھی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا جبکہ جن محکموں نے بھی برج المرجان ہوٹل کے لیے دستاویزات منظور کیے ان کیخلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے اور متعلقہ افسران سمیت محکموں پر ڈیمیجز کا کلیم کیا جائے گا۔ مرجان کنسٹرکشن گروپ کی لاڑکانہ کی انتظامیہ سے اپیل ہے کہ ہمیں عدالتوں میں اپنے حق کا دفاع کرنے کے لیے مہلت دی جائے اور ہائی کورٹ کے احکامات کیخلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے۔