محمود عباس کی جوبائیڈن سے امید، نادانی یا خواب؟

468

کوئی بھی جو بائیڈن کے امریکی صدارتی الیکشن میں کامیاب ہونے پر اتنا پرجوش نظر نہیں آیا جتنا فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نظر آئے۔

جب ساری امیدیں ڈوبتی نظر آئیں اور محمود عباس خود کو سیاسی توثیق اور فنڈز کے لئے بے چین محسوس کر رہے تھے، بائیڈن ایک سفید گھوڑے پر سوار فاتح کی طرح پہنچے اور فلسطینی رہنما کو سلامتی کی یقین دہانی کرائی۔

عباس ان پہلے عالمی رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے ڈیموکریٹک صدر منتخب ہونے پر ان کی فتح پر مبارکباد پیش کی جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو نے اپنے مبارکبادی والے بیان میں اس امید پر تاخیر کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ بالآخر نتائج کو پلٹنے میں کامیاب ہوجائیں گے

عباس اس طرح کے فریب میں نہیں تھے کیونکہ فلسطینی اتھارٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے ہاتھوں جس ذلت کا سامنا کیا اس کے تناظر میں عباس اس نئے صدر کے آنے سے پُرامید ہیں۔ بائیڈن، اسرائیل کے قریبی دوست ہونے کے باوجود محمود عباس کیلئے اب بھی ایک امید کی کرن ہیں لیکن کیا تاریخ کا پہیہ اُلٹا چل سکتا ہے؟ اس حقیقت کے باوجود کہ بائیڈن انتظامیہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ رخصت ہونے والی ٹرمپ انتظامیہ کے اسرائیل نواز اقدامات میں تبدیلی نہیں لائے گی۔

عباس کو یقین ہے کہ کم از کم اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن بحال ہوسکتا ہے لیکن یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگر صلح پسندی کے تمام اجزاء کا پہلے ہی خاتمہ ہوچکا ہو تو امن کیسے ہوسکتا ہے؟۔ یہ واضح ہے کہ اگر امریکی حکومت بیت المقدس کو اسرائیل کا ‘ابدی’ دارالحکومت تسلیم کرنے پر زور دیتی ہے، غیر قانونی یہودی بستیوں کی مالی امداد جاری رکھتی ہے اور مقبوضہ شام کی گولان پہاڑیوں پر اسرائیل کا حق تسلیم کرتی ہے تو بائیڈن انتظامیہ کے تحت بھی حقیقی امن کبھی نہیں ہوسکتا۔

پچھلے 30 سالوں میں امریکی حکومتیں اسرائیل کی فلسطین خلاف جارحانہ پالیسیوں کی مدد کرتی آئی ہیں تو جوبائیڈن انتطامیہ سے بھی مستقبل میں کسی بھی طرح کے منصفانہ اور پائیدار امن کی فراہمی کی امید رکھنا نادانی ہوگی۔

(بشکریہ فلسطینی نژاد امریکی صحافی رامزے بارؤد)