گزشتہ ماہ ویت نام کی سربراہی میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے ارکان، جاپان، امریکا اور چین سمیت 18 ممالک نے شرکت کی۔ اس اجلاس کی ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ اس میں پہلی بار کھل کر بحیرہ جنوبی چین کی صورتحال پر ’’شدید تشویش‘‘ کا اظہار کیا گیا ہے، جہاں چین نےاپنی بحری سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں اور ان میں دن بدن اضاافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس نوعیت کے سربراہ اجلاس کے بعد جاری کردہ بیان میں سخت الفاظ کا استعمال 5 سال کے وقفے کے بعد پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے۔ بیان میں چین کا نام لے کر بحیرہ جنوبی چین کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’خطے میں سمندر سے زمین کے حصول، سرگرمیوں اور سنگین نوعیت کے واقعات سمیت صورتحال میں پیشرفت پر بعض رہنماؤں نے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے‘‘۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رہنماؤں نے ہند بحرالکاہل کے بارے میں خطے میں آسیان کے کردار سے متعلق تصور ’’آسیان آؤٹ لُک آن دی اِنڈو پیسیفک‘‘ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اس تصور میں تنظیم کی آزادی، شفافیت اور بین الاقوامی قوانین کے احترام پر زور دینے والے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ بحیرہ جنوبی چین سنگا پور کے جنوب میں واقع ایک سمندر ہے جو اوقیانوس، بحرالکاہل، بحر ہند، بحر منجمد جنوبی اور بحر منجمد شمالی پر پھیلا ہوا ہےجس میں 35 لاکھ مربع کلو میٹر تائیوان بھی شامل ہےجبکہ سمندر سے ملحقہ ممالک میں چین، مکاؤ ، ہانگ کانگ، تائیوان، فلپائن، ملائیشیا، برونائی، انڈونیشیا، سنگا پور، تھائی لینڈ اورکمبوڈیا شامل ہیں ۔
اس سمندر پر چینی اثر و رسوخ کا مطلب چین کی ایک بڑی تجارتی برتری ہے، جسے مغربی ممالک بشمول چین کے روایتی حریف جاپان کے لیے بھی ہضم کرنا بہت مشکل نظر آرہا ہے۔ اسٹریٹیجک نوعیت کے لحاظ سے بھی یہ سمندر چین کے عالمی حریف امریکا کے لیے ایک بڑے خطرے کا باعث ہے۔ لہٰذا مختلف سفارتی انداز سے اس سلسلے میں چین پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ چین کے قریب ترین ہمسائے اور روایتی حریف جاپان کی جانب سے بھی اس موضوع پر مختلف نوع کی مصالحتی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک قدم آگے بڑھ کر انڈو پیسفک معاہدے جیسی تزویراتی کوششیں بھی سامنے آئی ہیں، جس میں امریکا، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا شامل ہیں لیکن چین اس موضوع پر کسی بھی دخل اندازی کو برداشت کرنے یا کسی بھی ایسے بیانیے پر کان دھرنے پر تیار نظر نہیں آتا جو اس کی پالیسی کے خلاف ہو۔ انڈو پیسفک ممالک میں آسٹریلیا ، بنگلا دیش ، بھوٹان ، برونائی ، کمبوڈیا، فیجی، بھارت، انڈونیشیا، جاپان، لاؤس، ملائیشیا، مالدیپ ، میانمر، نیپال، نیوزی لینڈ ، فلپائن ، سنگاپور ، سری لنکا، تائیوان ، نیپال، امریکا اور ویت نام شامل ہیں۔ بحیرہ جنوبی چین پر بلا شرکت غیرے چین کی نقل و حرکت کا مطلب ایک ایسی تزویراتی برتری ہوگی جس کا مطلب موجودہ عالمی نظام میں چین کے واضح اور اہم ترین کردار کا تعین ہوگا جو ہر لحاظ سے امریکا کے لیے ایک نا قابل قبول فارمولا ثابت ہوگا۔