آہ: احمد جما ل اعجازی

149

رانا محمود علی خان
گزشتہ دنوں احمد جمال اعجازی کراچی میں انتقال کر گئے ان کی افسوس ناک خبر سن کر انتہائی دکھ اور افسوس ہوا احمد جمال اعجازی کا تعلق حیدرآباد سے تھا اور انہوں نے حیدرآباد میں ہی تعلیم پائی اور M.Comسندھ یونیورسٹی سے پاس کیا مرحوم کے والد کی مشہور دکان شاہی بازار میں دین دنیا بک ڈپو تھی اس پر احمد جمال اعجازی روزانہ تین چار گھنٹے بقاعدگی سے بیٹھتے تھے احمد جمال اعجازی انتہائی با صلاحیت فرد تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ حیدرآباد کے جلد رکن بننے کے بعد حیدرآباد جمعیت کے ناظم منتخب ہوئے اس زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ کا سیٹ اپ اس طرح تھا کہ سندھ بلوچستان کا ایک ناظم ہوا کرتا تھا احمد جمال اعجازی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ سندھ بلوچستان کے ناظم بھی رہے ہیں۔ احمد جمال اعجازی جناح لاء کالج کے جنرل سیکرٹری کے عہدہ پر بھی یونین میں منتخب ہوئے تھے اسلامی جمعیت طلبہ کی یہ ہمیشہ روایت رہی تھی کہ وہ سندھ یونیورسٹی میں یونین کے صدر کے عہدہ پر اپنا نمائندہ نامزد کرتے احمد جمال اعجازی کو بھی اسلامی جمعیت طلبہ نے صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا انکی مہم بہت منظم طریقے سے چلی لیکن تعصب کی بنیاد پر وہ جام شورو کمپلیکس جو کہ سائنس کمپلیکس تھا سے جیت گئے تھے لیکن اولڈ کیمپس حیدرآباد سے ہار گئے تھے احمد جمال
اعجازی ایک اچھے مقرر بھی تھے اور سندھ یونیورسٹی کی جانب سے وہ کراچی یونیورسٹی میں مباحصوں میں بقاعدگی سے حصہ بھی لیتے تھے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد جماعت اسلامی حیدرآباد کے رکن بننے کے بعد اس وقت میاں شوکت امیر جماعت اسلامی حیدرآباد ہوا کرتے تھے 1979 کے کونسلر کے بلدیاتی انتخاب میں وہ یونٹ نمبر6لطیف آباد حیدرآباد سے کونسلر منتخب ہوئے اور کامیابی حاصل کی جماعت اسلامی کے کافی امیدوار کونسلر منتخب ہوئے تھے جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ احمد جمال اعجازی کو حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے مئیر کے پہلے الیکشن میں نمائندہ نامزد کیا جائے اور ایسا ہی ہوا لیکن تمام مخالف گروپ کی یہ کوشش تھی کہ وہ جما عت اسلامی کے امیدوار کو کامیاب نہ ہونے دیں پیپلز پارٹی کے 12کونسلر منتخب ہوئے تھے جس کی سربراہی قاضی عابد کر رہے تھے اس گروپ کی ترجیح تھی کہ وہ میئر کے لئے جماعت اسلامی
کے امیدوار سے معاہدہ کریں اور بشیر چانڈیو کو نائب میئر کے عہدہ کی حمایت کریں اگر ایسا معاہدہ ہو جاتا تو یقینا احمد جمال اعجازی حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے پہلے میئر ہوتے لیکن کچھ وجوہات کی بناء پر یہ معاہدہ نہ ہو سکا اور پیپلز پارٹی کے گروپ نے مجبورا دوسرے گروپ سے معاہدہ کیا اور اس طرح سے احمد جمال اعجازی میئر کے الیکشن میں کامیاب نہیں ہو سکے لیکن انہوں نے 4سال تک حسب اختلاف کے قائل ہونے کی حیثیت سے میونسپل کارپوریشن کی سیاست میں بھر پور حصہ لیا اور انہیں بلدیاتی قوانین پر مکمل عبور حاصل تھا میرا تعلق احمد جمال اعجازی سے بڑا قریبی تھا اسلامی جمعیت طلبہ سے لیکر سندھ یونیورسٹی کی سیاست اور بلدیاتی سیاست میں میں انکے ساتھ رہا کیونکہ میں بھی ورکرز سائٹ سے کونسلر منتخب ہو ا تھا کچھ عرصے کہ بعد احمد جمال اعجازی کراچی منتقل ہو گئے اور انہوں نے وہاں پر پرنٹنگ کا کاروبار کیا اور وہ کچھ عرصے کے لئے صوبائی محتسب اعلیٰ حیدرآباد کے ڈائریکٹر بھی مقرر ہوئے اور پھر ان کا کراچی ٹرانسفر ہو گیا بحیثیت صوبائی محتسب ڈائریکٹر کے انہوں نے انتہائی محنت سے کام کیا اور شکایت کنندہ کی خواہش ہوتی تھی کے ان کا کیس احمد جمال اعجازی چلائیں اور نیک نامی حاصل تھی میں یہ بات انتہائی وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کی ٹیم میں احمد جمال اعجازی جیسا با صلاحیت فرد مشکل سے ملے گا۔ میں انہیں ذاتی حیثیت سے بھی جانتا ہوں گزشتہ دنوں انہوں نے نماز فجر ادا کی اور نیند کے دوران ہی انکا انتقال ہو گیا مرحوم کے چار بیٹے ہیں جو ملک سے باہر ہیں اور ایک بیوہ ہے مرحوم کے بھائی بہن انتہائی ذہین تھے بڑے بھائی احمد کمال اعجازی نے سندھ یونیوسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور Atomic انرجی کمیشن میں ملازمت اختیار کی اور انہیں وہاں پر ستارہ امیتاز بھی حکومت پاکستان نے دیا۔ احمد جمال کے دو چھوٹے بھائی تھے مسعود اعجاز اور محمود اعجازی۔ مسعود اعجازی بھی حیدرآباد میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن رہے ہیں یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ مرحوم احمد جمال اعجازی پروفیسر شفیع ملک کی اہلیہ کے بھانجے اور پروفیسر شفیع ملک کے داماد مسعود اعجازی کے بڑے بھائی تھے۔ مرحوم کے چھوٹے بھائی محمود بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن رہے ہیں اور ڈاکٹر کا پیشہ اختیار کیا اور امریکہ میں منتقل ہوئے اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کی مغفرت فرمائے ان کے درجات کو بلند کرے اور ان کے بچوں اور بیوہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔