جب مسلمانوں کے پیروں سے زمین کھسک گئی

845

 

 

۔5 دسمبر 1992 کی شام ایجنسیوں نے انڈیا کے وزیراعظم نرسمہا رائو کو رپورٹ دے دی تھی کہ بابری مسجد شہید کر دی جائے گی۔ 6 دسمبر 1992 کو اتر پردیش (ایودھیا) میں آر ایس ایس اور اس کی اتحادی تنظیموں کے۔ لگ بھگ دو لاکھ افراد مسجد کے پاس جمع ہوئے۔ بی جے پی کے رہنماؤں نے اشتعال انگیز تقاریر کیں، جن میں ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی قابل ذکر ہیں۔ چند ہی گھنٹوں میں مجمع میں ہیجان پھیلنے لگا اور نعرے بلند ہونے لگے۔ مسجد پر حملے کے پیش نظر پولیس کا پہرا لگا دیا گیا، تاہم دوپہر کے وقت ایک نوجوان پولیس کو چکمہ دے کر مسجد پر چڑھ گیا اور زرد جھنڈا لہرایا۔ ہجوم کے لیے یہ حملے کا اعلان تھا۔ ہجوم نے مسجد پر چڑھائی کر دی۔ پولیس کی تعداد انتہائی کم تھی اور غیر مسلح تھی۔ سو وہ اپنی جان بچا کر بھاگ نکلے۔ ہجوم نے کلہاڑیوں، ہتھوڑوں اور دیگر اوزاروں سے حملہ کر کے مسجد کو چند ہی گھنٹوں میں منہدم کردیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے شہر کی کئی مسجدوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس واقعے کے بعد ہندو اور مسلمانوں میں فساد کی ایسی بنیاد پڑی کہ گزشتہ 28 سال میں بے حد ہلاکتیں ہوئیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد فسادات میں تقریباً تین ہزار افراد ہلاک ہوئے جن میں دو ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔ 1857 سے لیکر 1947 تک 90 سال کے وقفے میں اور اس کے بعد بابری مسجد کی شہادت تک مسلمانوں کی جان و مال کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں رونما ہونے والے فسادات میں جام شہادت نوش کرنے والوں کی مجموعی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں بغیر جنگ کے یک طرفہ طور پر شہید ہونے والوں کی یہ بڑی تعداد ہے، جس کی مثال بغداد میں تاتاریوں کے حملے کے سوا کہیں اور نہیں ملتی۔
بابری مسجد جو مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے نام سے منسوب ہے۔ بھارتی ریاست اتر پردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک تھی اسے مغل سالار میر باقی نے 1528 میں تعمیر کروایا تھا۔ 1991 میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی غرض سے بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے اپنی تنظیم آر ایس ایس کے اشتراک سے ایک ملک گیر مہم رتھ یاترا شروع کی، تاکہ ملک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کیا جائے اور بی جے پی کو اقتدار کی سیڑھی پر چڑھایا جائے۔ اس یاترا کے نتیجے میں انڈیا میں مختلف مقامات پر مسلم مخالف فسادات ہوئے۔ بالآخر آر ایس ایس اپنے منصوبے میں اس وقت کامیاب ہوئی جب 1991 میں بی جے پی اترپردیش کے الیکشن میں کامیاب ہوئی۔
ہندو قوم پرست پارٹی بی جے پی کی 6 سالہ مہم کا نتیجہ تھا کہ وہ بابری مسجد توڑ کر اس کی جگہ رام مندر بنانے میں کامیاب ہوئی۔ 2016 میں ایک ہندو مذہبی رہنما نے بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کی درخواست عدالت عظمیٰ میں دائر کی اور نومبر 2019 کو عدالت عظمیٰ نے مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ بھارتی عدالت عظمیٰ نے 9 اکتوبر کی صبح بابری مسجد کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندوؤں کو متنازع زمین دینے اور مسلمانوں کو مسجد کی تعمیر کے لیے متبادل کے طور پر علٰیحدہ اراضی فراہم کرنے کا حکم دیا۔
پچھلے 28 سال سے جس طرح بابری مسجد کے مقدمے کی سماعت ہو رہی تھی اس سے کچھ اچھی امید نہیں تھی مگر عدالت عظمیٰ نے جب مسجد کی زمین ہندو بھگوان رام لال کے سپرد کی تو مسلم فریق کے تین دلائل بھی تسلیم کر کے فیصلے میں شامل کر دیے۔ عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ 1949 کو رات کے اندھیرے میں مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی مورتی رکھنا اور پھر دسمبر 1992 کو مسجد کی مسماری، مجرمانہ فعل تھے اس کے علاوہ آثار قدیمہ کی تحقیق کا حوالہ دے کر بھی یہ بات واضح کردی کہ 1528 میں جس وقت مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تھی اس وقت کسی مندر کے آثار نہیں ملے تھے۔ آرکیو لوجیکل سروے آف انڈیا کے مطابق اس جگہ پر کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی گئی تھی۔ بابری مسجد کو مسمار کرنے اس کے قصورواروں کو سزا سے بچانے میں ہندو قوم پرستوں سمیت سیکولر جماعتوں یعنی کانگریس کا دامن بھی خون سے آلودہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنو کی عدالت نے 28 برس بعد بابری مسجد انہدام کیس میں نامزد ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔ اس مقدمے کے ملزمان بی جے پی کے لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ سمیت کئی سینئر سیاستدان تھے۔بھارتی عدالت عظمیٰ کے فیصلے اور دیگر عدالتوں کے فیصلے نے بابری مسجد پر دہشت گردانہ حملے کو قانونی جواز فراہم کر دیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے مجرمانہ گروہوں کو کسی بھی مذہب کی عبادت گاہوں پر دعویٰ قائم کرنے کا موقع مل جائے گا۔
آج بابری مسجد کی شہادت کو 28 برس بیت گئے ہیں۔ انڈیا میں گاؤ کشی کے نام پر نہتے مسلمانوں کا قتل عام، سہ طلاق، این آر سی، اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر وغیرہ بی جے پی حکومت کے وہ اقدامات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کو دفن کر دیا گیا ہے۔ ہندو توا اور ہندو فسطائیت کو فروغ دیتے ہوئے سیکولر خیالات رکھنے والے ہندو اہل دانش کی زبان طاقت کے ذریعے بند کر دی گئی ہے۔ چاپلوسی کرنے والے الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کو مسلم مخالف پروپیگنڈا کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بابری مسجد کو گرانا اور اس کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔