ہر ایک کا نشان مسلمان

411

یہ بات دعوے سے نہیں کہی جاسکتی کہ کس ملک میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ آزادی حاصل ہے اور کس ملک میں ان کو پابندیوں اور مظالم کا سامنا ہے لیکن اس معاملے کو سمجھنے کا پیمانہ یہی ہونا چاہیے کہ کون سا غیر مسلم ملک مسلمانوں کی کتنے فی صد آبادی رکھتا ہے اور اس کے دستور کا کیا دعویٰ ہے۔ پھر وہاں ہونے والے واقعات کا جائزہ اس کے دستور کی روشنی میں لیا جانا چاہیے۔ اس اعتبار سے اب تک صرف نیوزی لینڈ اپنے دستور کے دعوئوں پر بڑی حد تک پورا اترا ہے۔ ساری دنیا کا ٹھیکیدار امریکا اپنے دستور کو مسلمان کے بعد سیاہ فاموں کے خلاف بھی پامال کرچکا ہے۔ دنیا میں کہیں کسی جگہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو امریکا اس کی امداد، اس سے تجارت، اس کے ساتھ معاہدے سب منسوخ کردیتا ہے۔ اس کے حکام کے دورے ملتوی ہوجاتے ہیں لیکن آج بھی امریکا بلکہ آج کل کیا گزشتہ چار عشروں سے امریکی حکمران کھل کر اسلام کے خلاف اقدامات میں مصروف ہیں بلکہ حکومتوں نے گزشتہ برسوں میں جس نہج پر مسلم مخالف پروپیگنڈا کیا ہے اور یہود کے زیر کنٹرول میڈیا نے ایسی خبروں کو خوب خوب اچھالا ہے۔ جس کی وجہ سے عام امریکی کے ذہن میں مسلمانوں کا خراب چہرہ اُبھرا اور اب پختہ ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں میڈیا پر آنے والی ایسی کوئی خبر بھی جس میں مسلمانوں کو برا کہا گیا ہو اس پر امریکی یقین کرلیتے ہیں۔ نتیجہ وہی ہوا جس کا ہم برہمی سے ذکر کرتے آرہے ہیں کہ اس پروپیگنڈا مہم کا نقصان بالآخر امریکا ہی کو ہونا ہے اور ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اچانک فائرنگ کے واقعات، مسلح حملوں کا رجحان اور ان کا رخ سیاہ فاموں کی جانب مڑنا۔ یہ سب ان ہی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ امریکیوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میڈیا کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ یا حکمرانوں کی وجہ سے اس کا جواب یہی ہے کہ حکمرانوں کی شہ پر میڈیا کے ذریعے۔ اب حالت یہ ہے کہ برقع، اسکارف،
ڈاڑھی، مسجد، ٹوپی وغیرہ نفرت اور خوف کی علامت بن گئے ہیں۔ حالاں کہ عیسائی راہبائوں کا لباس برقع اور اسکارف سے مماثل ہوتا ہے۔ پادری کی ٹوپی اور مخصوص لباس ہوتا ہے۔ یہودی ربی کا لباس مخصوص ہوتا ہے لیکن میڈیا پروپیگنڈے کا نشانہ مسلمان ہوتے ہیں، اس لیے ان پر کہیں بھی حملہ ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے کا ایک حملہ کنساس کے علاقے وچیٹا کی مسجد کے باہر ہوا۔ ایک 26 سالہ نوجوان ہاتھ میں گن لیے ہوئے اسلام کے خلاف نعرے لگانے لگا اس کی شکایت کی گئی تو پولیس نے اسے گرفتار کیا۔ یہ واقعہ مسجد النور کے سامنے پیش آیا۔ مزید تحقیق کے بعد پتا چلا کہ یہی شخص اسلامک سوسائٹی وچیٹا کے سامنے بھی متنازع پوسٹرز چسپاں کرچکا تھا۔ کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشن نے اس کی شکایت کی ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ ایسا کام کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
حالیہ امریکی انتخابات کے دوران مسلم ووٹروں، مسلم رضا کاروں اور مساجد پر احتجاج یا نعرے بازی یا تشدد کی دھمکی کے واقعات بھی
ہوئے ہیں۔ بالٹی مور میں چار بچوں کی ماں ایک رضا کار خاتون کو محض اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہ حجاب لیے ہوئے تھی۔ ٹرمپ کے حامی ایک ووٹر نے اچانک چیخنا شروع کردیا تم لوگ اپنا وقت ضائع کررہے ہو ٹرمپ جیت رہا ہے۔ مسلمان رضا کار نے اسے پانی کی بوتل پیش کی۔ اس کے بعد وہ آوازیں لگاتا ہوا چلا گیا۔ یہ بات صرف اس لیے تھی کہ خاتون اسکارف پہنے تھی ورنہ اسی جگہ بائیڈن کے حامی دیگر رضا کار بھی موجود تھے لیکن یا تو وہ مسلمان نہیں تھے یا ڈاڑھی، اسکارف ٹوپی وغیرہ کے سبب نمایاں نہیں تھے۔ یہ تو چند ایک واقعات ہیں ورنہ اب اسلام دشمنی کے حوالے سے یورپ امریکا اور مسلمانوں کے اپنے ممالک بھی ایک ہی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ کیوں کہ نیوورلڈ آرڈر حقیقتاً نافذ ہوچکا ہے۔ اسلامی غیر اسلامی سارے ہی ملکوں کو اس پر عمل کرنا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی دو عشروں سے زیادہ عرصے سے کر رکھی ہے۔ عالمی ضمیر نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ ضمیر صرف مسلمانوں کے معاملے میں مردہ ہے۔ ذرا توہین رسالت کے کسی مجرم کو سزائے موت دے کر دیکھ لیں۔ کسی شاتم رسول کو جیل میں ڈال کر تو دیکھ لیں، اظہار رائے کی آزادی کو دنیا میں انسانیت کی سب سے بڑی قدر قرار دے کر یہ ضمیر تڑپنے لگتا ہے۔ اتنا تڑپتا ہے کہ ہمارے حکمران راتوں رات آسیہ اور درجنوں لوگوں کو ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں۔ لہٰذا اب یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ غیر ملک میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ کیوں کہ مسلمان ممالک کسی سے پیچھے نہیں
رہے۔ مصر نے مسلمانوں پر مظالم کی تاریخ رقم کردی ہے۔ اخوان پر ابتلا اخوان کی حکومت کا حال ہی میں خاتمہ، جعلی مقدمے سے جعلی سزائیں۔ بنگلادیش میں روہنگیا مسلمانوں پر سختی اور مظالم۔ اب انہیں نہایت ہولناک جزیرے منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جہاں ہر سال مون سون میں پانی جمع ہوجاتا ہے اور اس کا بیش تر حصہ زیر آب آجاتا ہے۔ بنگلادیش میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن مسلمان ملکوں میں صرف ان مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے جو اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں، کے مصداق ہیں۔ ورنہ سرکار اور عالمی ساہوکار کے رنگ میں رنگے ہوئے لوگ تو ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ حال تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بھی برا ہے۔ ہزاروں لوگ لاپتا ہیں اور ان کی بھاری اکثریت خدا کا نام لینے والوں کی ہے۔ کوئی محض اس لیے غائب ہے کہ اس کے فون پر کہیں سے فون آیا تھا۔ کسی کے گھر کوئی آیا اس کا دوست کسی مسئلے پر مطلوب ہے۔ کسی کو یوں ہی اٹھا لیا ہزاروں سے دو تین درجن کا پتا چلا ان میں سے بھی دوچار کی لاشیں مل گئیں۔ پاکستان میں تھوڑی بہت جمہوریت ہے تو پتا بھی چل جاتا ہے کہ کسی کو غائب کردیا گیا ہے۔ عرب ملکوں میں تو ایک خاموشی رہتی ہے۔ یقینا یہ سب مسلمان ملک میں حکمران بھی مسلمان ہیں اور مظلوم بھی مسلمان۔ اگر تمام مالک میں مسلمانوں پر مظالم کا جائزہ لیا جائے تو مسلمان ممالک میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر مظالم کی شرح زیادہ نکلے گی۔ لیکن پھر بھی لوگوں کو اپنے ملکوں میں آواز اٹھانے کے کچھ نہ کچھ مواقع مل ہی جاتے ہیں۔ ان مواقع کو مثبت انداز میں استعمال کرکے معاشرے کو سدھارنے کی جدوجہد کی جانی چاہیے۔