جنسی جرائم پر قابو پانے کیلیے قانون 1400 سال پہلے بن چکا ،عملدرآمد کی ضرورت ہے

202

اسلام آباد (میاں منیر احمد) پاکستان میں مجموعی طور پر بداخلاقی اور زیادتی کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور اب یہ تعداد خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے کہ روزانہ میڈیا پر ہی ایسے واقعات کی خبر شائع اور نشر ہو رہی ہے‘ ایک اطلاع تو یہ ہے کہ ملک میں ایسے واقعات ہر روز 10 سے زیادہ ہو رہے ہیں مگر رپورٹ نہیں ہوتے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 6 سال کے دران 22 ہزار سے زیادہ واقعات باقاعدہ رپورٹ ہوئے تاہم سزا صرف 77 ملزمان ہی کو مل سکی ہے۔ جسارت نے اس بارے میں رائے عامہ کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ کیا صرف قانون سازی سے ہی جنسی جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ اس سوال پر سیاسی، شو بز کے علاوہ سماجی رہنمائوں اور قانون دانوں سے رائے لی گئی ہے‘ جنہوں نے مجموعی طور پرکہا کہ قانون تو 1400 سال پہلے ہی بن چکا ہے‘صرف عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اسی سلسلے میں ہائی کورٹ کے سابق جسٹس فرخ آفتاب حسین نے کہا کہ عدلیہ ہمیشہ قانون کے مطابق پراسیکیوشن اور شہادتوں کی روشنی میں ہی فیصلہ کرتی ہے جس کیس میں شہادتیں کمزور ہوں گی اور پراسیکیوشن کے کام میں قانونی خلا ہوگا تو عدالت نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے لہٰذا قانون موجود ہے مگراصل مسئلہ پراسیکیوشن اور شہادتوں اور گواہوں کا ہوتا ہے‘ حکومت کو چاہیے کہ اس شعبے میں بہتری لائے اسی کے ذریعے ہم قانون کے بہترین استعمال کے ساتھ معاشرے میں بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ بلوچستان کے سابق ایڈووکیٹ جنرل صلاح الدین مینگل نے کہا ہے کہ بہت مضبوط قانون اور پراسیکیوشن کی ضرورت ہے اور ملک میں اسلامی قانون نافذ کیا جائے تب کہیں جاکر یہ کام رک سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے وکیل قوسین فیصل مفتی نے بتایا کہ اس وقت 4 ہزار 60 جنسی جرائم سے متعلق مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں77 مجرموں کو سزائیں بھی ہوئیں اور صرف 18 فیصد مقدمات پراسیکیوشن کی حد تک پہنچے قوانین کی کمزوری، نظام کی خرابی اور سماجی دباؤ کے باعث صرف41 فیصد کیس پولیس میں رپورٹ کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ 6 سال کے دوران زیادتی کے کیسوں کی تعداد 60 ہزار سے زیادہ ہو سکتی ہے‘ اس دوران ایک ہزار 274 مقدمات کا فیصلہ ہوا اور ایک ہزار 192 ملزم بری ہو ئے‘ ایسے واقعات سے معاشرتی بگاڑ بڑھ رہا ہے ۔ پاکستان بار کونسل کے رکن نواز کھرل ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ دکھ کی بات ہے کہ جب کشمور یا قصور جیسا کوئی سانحہ ہوتا اور میڈیا میں اس کے بارے میں شور ہوتا ہے تو انتظامیہ اور مقننہ میں بھی ہلچل نظر آتی ہے‘ بڑے وعدے اور اعلانات بھی کیے جاتے ہیں لیکن عملی صورت یہ ہے کہ اب تک مقننہ بھی جائزہ لے کر اندراج مقدمہ سے لے کر طبی ٹیسٹ اور پولیس تفتیش تک کے امور یا قواعد و قوانین کو معروضی حالات کے مطابق ترتیب نہیں دے سکی‘ زیادتی کیس بڑھتے چلے جا رہے ہیں‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوانین پر نظر ثانی بھی کی جائے اور پولیس اور پراسیکیوشن کا جائزہ لے کر خرابیاں دور کرنے کے علاوہ سماجی رجحان کا نفسیاتی جائزہ بھی لیا جائے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر عامر کیانی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے بچوں اور خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم کا سخت نوٹس لیا ہے‘ ایسے جرائم کسی بھی مہذب معاشرے میں برداشت نہیں کیے جاتے‘ مجرموں کو نامرد بنانے کا قانون لایا جائے گا تاکہ اجتماعی اور جبری زیادتی کے واقعات روکے جا سکیں گے‘ یہ جو واقعات بڑھ رہے ہیں‘ اس کی سب سے بڑی وجہ مجرموں کو عبرت ناک سزائیں نہ دینا ہے‘ وزیر اعظم عمران ایسے مجرموں کے خلاف سخت سے سخت قانون کے اطلاق کا عزم ظاہر کر رہے ہیں‘ وفاقی کابینہ نے زیادتی کے مجرموں کی پھانسی کی سزا کو قانون کا حصہ بنانے پر زور دیا ہے اور کہا زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے لیکن جو فیصلہ ہوگا‘ قانون کے مطابق ہی ہوگا‘ مسودہ قانون میں سزائے موت کو شامل نہیں کیا گیا‘ وفاقی وزرا فیصل واواڈا، اعظم سواتی اور نور الحق قادری نے بھی پھانسی کی حمایت کی ہے‘ حکومت کی قانونی ٹیم نے ریپ قانون آرڈیننس کے مسودے پر کام مکمل کر لیا ہے۔ اسٹیج اداکارہ فرزانہ خان نے کہا ہے کہ زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے کیونکہ ہم نے اپنے معاشرے کو محفوظ ماحول دینا ہے‘ اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہو تو ضرور کی جانی چاہیے‘ پاکستان میں خواتین مختلف فیلڈز میں اپنی مہارت کے جوہر دکھا رہی ہیں‘ خواتین ٹیچنگ، بینکنگ، ہوٹلنگ کے ساتھ ساتھ مختلف سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمت کر رہی ہیں‘ بعض خواتین گھریلو مجبوری کی وجہ سے ملازمت اختیار کرتی ہیں جبکہ بعض شوقیہ طور پر گھر کی بوریت سے تنگ آکر دفاتر کا رخ کرتی ہیں جو کمسن بچیاں لوگوں کے گھر کام کرتی ہیں انہیں بہت نامساعد حالات میں اپنی خدمات انجام دینی پڑتی ہیں‘ خواتین مردوں کی جانب سے ہراسمنٹ اور بداخلاقی کا شکار ہوتی ہیں اور دوسری طرف خواتین ہی کمسن بچیوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہیں اس حوالے سے مناسب قانون سازی ضروری ہے۔ سماجی کارکن میاں ثنا اللہ نے کہا کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اگر ایک خاتون جج کی عزت محفوظ نہیں ہے تو ایک لوئر مڈل کلاس کی عورت کیسے محفوظ رہ سکتی ہے‘ ان واقعات کی بیخ کنی کیلیے سخت ترین سزائوں کے لیے قانون سازی کی طرف جانا ہوگا بصورت دیگر ظلم و جبر ختم نہیں ہوگا۔ سماجی رہنما اعجاز احمد نے کہا کہ یہ جو نامرد بنانے کا قانون لا رہے ہیں یہ بھی نرا لافراڈ ہے‘ اس سے زیادہ ضروری معاشرے سے فرسٹریشن اور انتشار کا خاتمہ ضروری ہے۔