تاریخ کا جبر کہہ لیں یا اسے کوئی اور نام دیں انچاس سال ہونے کو ہیں دسمبر کا مہینہ عبداللہ خان نیازی کی وجہ سے ہم پر بہت بھاری گزرتا ہے۔ گزشتہ عام انتخابات کے نتائج آئے تو تحریک انصاف فتح مند قرار پائی، عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ بھلا ہو وزیر اعظم کا کہ انہوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی پہلا نوٹیفکیشن یہ جاری کیا کہ سرکاری دستاویزات میں ان کے نام کے ساتھ لفظ نیازی شامل نہ کیا جائے، یہ نوٹیفکیشن سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے، ہمیں امید تھی کہ تبدیلی آگئی ہے مگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت اس وقت اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑی ہے۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ کفایت شعاری اپنائے گی، نہایت مختصر کابینہ ہوگی، لوگوں نے سمجھا کہ اب ملک میں اللوں تللوں کا دور گزر گیا، حکومت سنبھالتے ہیں، پچپن روپے فی کلو میٹر کے حساب سے ایک ہیلی کاپٹر لیا اور اس کے ذریعے گھر سے وزیر اعظم آفس آنے لگے، وزیر اعظم نے ایوان وزیر اعظم کی بھینسیں تک بیچ دیں، گاڑیاں فروخت کردیں، اب ایوان وزیر اعظم کے لیے گاڑیاں بھی ہیں اور دودھ بھی مارکیٹ سے لیا جاتا ہے اور کابینہ کا سائز بھی بڑھتے بڑھتے ساٹھ، ستر تک پہنچ چکا ہے۔ معاون خصوصی، وزراء مملکت، مشیران کرام اور سب کچھ ہے مگر کفایت شعاری کہیں نظر نہیں آرہی، ایک کھلبلی سی مچی ہوئی ہے۔ ابھی وزیر اعظم نے قوم سے کہا ہے کہ وہ ترکی ڈراما ایمرس یونس لازمی دیکھیں، بھلا ہو وزیر اعظم کا کہ انہوں نے یہ بات بتانے کے لیے کوئی ہنگامی پریس کانفرنس نہیں کی، ایک ٹوئٹ ہی پر اکتفا کیا ہے۔ ہنگامی پریس کانفرنس نہ کرکے سرکاری خزانہ پر بوجھ نہیں بنے، اس بات پر وزیر اعظم کا شکریہ، وہ چاہتے تو قوم کو خوشخبری دینے کے لیے ہنگامی پریس کانفرنس بھی کر سکتے تھے، مگر انہیں قومی خزانے کا احساس ہے۔ دو اڑھائی سال میں حکومت نے متعدد بار پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا اور کئی بار تو ایسا ہوا کہ عین آدھ گھنٹہ قبل اجلاس ملتوی یا منسوخ کردیا گیا شاید بچت پروگرام کے لیے ہی کیا گیا تھا؟
وزیر اعظم صاحب آپ کا شکریہ اس بات پر بھی ہے کہ آپ نے اپوزیشن کی بہت مدد کی اور کوئی پیسہ دھیلہ ان سے وصول نہیں کیا، غیر مقبول ہوتی ہوئی اپوزیشن آپ کی حکومت نے پھر سے مقبول بنا دی ہے، آپ کے وسیم اکرم پلس کے فیصلے صاف دیکھے جاسکتے ہیں اور ان فیصلوں کے نتائج اور اثرات پنجاب اچھی طرح بھگت رہا ہے، وزیر اکرم پلس کے ترجمان بھی بہت اعلیٰ ہیں، حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ احساس پروگرام چلارہی ہے، پناہ گاہیں اس نے بنائی ہیں، اس کے لیے آپ کا بہت شکریہ مگر یہ بھی دیکھیے کہ بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے، روزگار نہ ہونے سے حکومت کو احساس پروگرام کی رقم بڑھانا ہوگی اور پناہ گاہوں کی تعداد بھی بڑھادی جائے تاکہ تیزی سے بے روزگار ہوتی ہوئی قوم کو کہیں تو پناہ مل سکے۔ تحریک انصاف جب اقتدار میں نہیں آئی تھی اور دھرنا دھرنا کھیل رہی تھی، تب اس کے اسٹیج سے نعرے لگائے جاتے تھے، نوے روز میں کرپشن ختم کردوں گا، قرض نہیں لوں گا، بیرون ملک رکھا ہوا پیسہ واپس لائوں گا یہ سب نعرے اس وقت بھی ایک مذاق معلوم ہوتے تھے اور آج ثابت ہوگیا ہے کہ یہ نعرے قوم کے ساتھ سنگین مذاق تھے۔
جناب وزیر اعظم! آپ نے بہت اچھا کیا کہ قوم کو ترکی ڈراما دیکھنے کا مشورہ دیا ہے، ریاست مدینہ کا تصور اگر تحریک انصاف کے ذہن میں یہی تھا تو آج قوم کو اچھی طرح سمجھ میں آگیا ہے کہ تحریک انصاف کیسا پاکستان بنانا چاہتی ہے۔ کتنے ڈرامے ہیں جو اس وقت مختلف ٹی وی چینلوں کے ذریعے دکھائے جارہے ہیں، ان سب میں باپ کے ساتھ بدتمیزی، ماں کے ساتھ ظلم، اور بد تہذیبی کے سوا دکھایا ہی کیا جاتا ہے، ریاست مدینہ میں تو باپ اور ماں کا مقام ہی کچھ اور بتایا گیا تھا، ہمیں واقعی ریاست مدینہ چاہیے، مگر وہ نہیں جو تحریک انصاف کے ذہن میں ہے، وہ ریاست مدینہ چاہیے وہ مرجع خلائق لیڈر شپ چاہیے جس کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے ہوں، ہم پی ڈی ایم سے خوش نہیں ہیں، ان کے لیے بھی سب کچھ وہی اصل ہے جو تحریک انصاف اپنے لیے مانگ رہی ہے، اس ملک کے عوام کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں کسی نجات دھندہ کی تلاش میں ہیں مگر افسوس کہ اس ملک میں کوئی رہبر نظر نہیں آرہا، کوئی لیڈر نہیں ہے، کوئی رہنماء نہیں ہے یہ سب لیڈر، رہنماء اور رہبر بقول سعود ساحر ننھے میاں ہیں، چھوٹی سوچ کے مالک ہیں، بالغ نظر نہیں ہیں، اقوام عالم کی جانب نگاہ دوڑائیے، ہم کہتے ہیں کہ ہماری قوت بے مثال ہے۔
مگر جناب! حقائق یہ ہیں کہ ہم ادراک ہی نہیں رکھتے کہ کس قدر مشکل حالات اور چیلنجز درپیش ہیں، مسلم دنیا بکھری ہوئی ہے، مغرب متحد ہے، دشمن چالاک اور زیرک ہے اور دوسری جانب مسلم دنیا کی صنعتیں، زراعت، تہذیب، تعلیم تمدن اور اخلاقیات سب تنکے کی مانند بہہ رہی ہیں، یہ وقت خود احتسابی کا ہے کون ہے جو اس جانب توجہ دے گا… کوئی ہے؟