قرآن سے دوری اوراسے نہ سمجھنے سے نمازیں بے اثر ہوگئی ہیں

1062

کراچی (رپورٹ :خالد مخدومی ) نماز کے مطلوبہ اثرات نہ ہونے کی ایک وجہ قران سے دوری ہے‘ قرآن تبدیلی لانے والی کتاب ہے‘ نماز کے فرائض وواجبات ، آداب و شرائط کا لحاظ نہیں کیا جاتا‘ ہماری عبادات بے اثر ہونے کی وجہ دنیا میں جائز ضروریات سے زاید مشغول ہوجانا ہے‘ ہماری نمازوں میں حقیقی روح نہیں پائی جاتی‘ نماز میں پڑھے جانے والے اذکار کا ترجمہ ہم نہیں جانتے‘ نماز اس وقت منکرات سے روکتی ہے جب اس کو تمام شرائط اور قواعد کے ساتھ اس کے وقت پر ادا کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز علمائے کرام مفتی جامعہ الفصہ کے دارالافتا کے رئیس اور نائب مہتمم مفتی زبیر، جمعیت اتحاد العما کے صدر مولانا عبدلواحید، مجلس تحقیق اسلامی اور محدث فورم سے تعلق رکھنے والے حافظ محمد ارشد اور مولانا محمد نعمان بخاری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ آخر ہماری نمازیں بے اثر کیوں ہوگئیں۔ مفتی زبیر نے کہاکہ نماز سے برائیوں کے نہ رکنے کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہماری نمازوں میں وہ حقیقی روح نہیں پائی جاتی جسے قرآن وحدیث میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے‘ قرآن کریم میں جہاں نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں اطمینان اور خشوع وخضوع کے ساتھ نماز قائم کرنے کا بھی حکم دیا گیا‘ احادیث طیبہ میں نماز کے اندر ’’صفتِ احسان ‘‘ پیدا کرنے کا حکم دیا گیا اور صفت احسان کیا ہے خود نبیؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح عبادت کرو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ تصور قائم نہ کرسکو تو کم از کم یہ تاثر رکھو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘ اب بتائیے کتنے لوگ اس تصور کے ساتھ نماز قائم کرتے ہیں‘ دوسرا سبب یہ ہے کہ نماز میں پڑھے جانے والے اذکار کا ترجمہ ہم نہیں جانتے‘ جس کی وجہ سے اس کے بڑے اور حقیقی و اصلی فوائد اور اثرات پیدا نہیں ہوتے‘ تیسرا بڑا سبب یہ ہے کہ نماز کے فرائض و واجبات ، آداب و شرائط کا لحاظ نہیں کیا جاتا‘ اب افراد اور بزرگ اور نیکو کاران مذکورہ 3 شرائط کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں تو ان کی زندگی کا جائزہ لے لیا جائے کہ وہ کس قدر دینداری اور تقویٰ کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جبکہ باقی افراد زیادہ سے زیادہ اپنے لازمی فریضہ سے تو شاید سبکدوش ہوجاتے ہوں مگر اس کے بڑے اثرات مثلاً برائیوں سے رکنے اور نیکیوں کا خوگر بننے جیسی صلاحیتوں سے محروم رہتے ہیں۔ جمعیت اتحاد العلما کے صدر مولانا عبدلواحید نے کہا ہے کہ بے شک نماز منکرات و فواحش سے روکتی ہے لیکن نماز اس وقت منکرات سے روکتی ہے جب اس کو ا س کی تمام شروط اور قواعد کے ساتھ اس کے وقت پر ادا کیا جائے‘خشوخ و خضوع اور تقویٰ کے ساتھ اد اکیا جائے تو اس صورت میںنماز لازمی طور پر اپنے اثرات چھوڑے گی لیکن اگر نماز کی فرضیت کے فلسفے کو مدنظر رکھنے کے بجائے عادت اور رسمی عبادت کے طور پر ادا کیا جائے تو اس کے مطلوبہ اثرا ت ظاہر نہیں ہوتے‘ تاہم اگر نماز سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ بھی ہوں تو نماز کی ادائیگی جاری رکھنی چاہیے۔ حافظ محمد ارشد نے کہا کہ نماز سمیت کئی عبادات مسلمانوں پر فرض کی گئی ہیں‘ خالق کائنات کا عطا کیا ہوا نظام عبادت حکمت سے خالی کیسے ہو سکتا ہے، یہ عبادتیں نہایت گہرا اثر رکھتی ہیں‘ اللہ پاک کو ہماری عبادتوں کی ضرورت نہیں، وہ تو ہماری بھلائی چاہتا ہے‘اسی لیے اس نے ہم پر کچھ عبادتیں لازم کیں اور کچھ عبادتیں اختیاری رکھیں تاکہ ان کا ہماری زندگی پر اثر ظاہر ہو، نماز کے بارے میں سورۃ العنکبوت کی آیات نمبر 45 میں اللہ تعالی کاارشاد ہے ،اور نماز قائم کریں، یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ گویا کہ نماز کی فرضیت کا مقصد یہ ہے کہ انسان ہر طرح کی بے حیائی اور بری باتوں سے رک جائے ، جب عبادتیں اس قدر اثر رکھتی ہیں تو آخر ہماری عبادتیں ان اثرات سے خالی کیوں ہیں‘ اگر ہم اس کے اسباب کا خلاصہ کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں‘ ہمارے عملوں میں اخلاص کی کمی ہوتی ہے‘ ریا و نمود کا عمل دخل ہوتا ہے‘ سورۃ البینۃ میںاللہ کا حکم ہے کہ عبادت خالص یکسو ہوکر کریں۔ جب اخلاص ہی نہ ہو تو ہمارے اعمال قابل قبول کیسے ہوں گے‘ جب عبادات میں اخلاص نہ ہونے سے دل مردہ ہوجاتا ہے‘ اسی طرح ہماری عبادات بے اثر ہونے کی دیگر کئی وجوہات ہیں ‘ دنیا میں اس قدر مشغول ہوجانا کہ ہر چیز میں اپنا مفاد دیکھنا ‘ دنیا کو حاصل کرنے میں رات دن ایک کرنا اور آخرت سے بے پروا ہوجانا‘ یہ بڑا خطرناک مسئلہ ہے‘ اسلام رہبانیت کا قائل نہیں اور نہ ہی پاکیزہ روزی کمانے سے روکتا ہے بلکہ اسلام تو اس کی ہمت افزائی کرتا ہے ، لیکن ساری کوشش دنیا ہی کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ایک حدیث کے مطابق’’2 بھوکے بھیڑیے بکر ی کے ریوڑ میں چھوڑے جائیں تو وہ جتنا بکریوں کو نقصان پہنچائیں گے‘ اس سے کہیں زیادہ مال اور عہدہ کا لالچ انسان کے دین کو نقصان پہنچاتا ہے‘‘۔ایک وجہ قران سے دوری ہے‘ قرآن تبدیلی لانے والی کتاب ہے‘ قرآن انقلابی کتاب ہے‘ انسانی دل پر قرآن کا عجیب اثر ہوتا ہے‘ طفیل بن عمروالدوسی، حبشہ کا بادشاہ اصحمہ اورعمربن خطاب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن کو قرآن نے ہی بدلا تھا۔اسی طرح شہوات میں پڑنا بھی عبادات کے بے اثر ہونے کا سبب ہے‘ شراب وکباب اور عورت ،شیطان کا بہت مضبوط ہتھیار ہے‘عبادت کے ناقص تصور نے ہماری عبادات کو بے اثر کردیا ہے‘ ہم نے محض یہ سمجھا کہ بعض رکعات ادا کرلینے کا نام عبادت ہے ‘ اسی لیے نماز ادا کرتے وقت ہم سچے مسلمان دکھائی دیتے ہیں اور جب نماز سے فارغ ہوتے ہیں تو جھوٹ، فراڈ ،غیبت، حرام خوری، رشوت خوری اور جوا بازی میں لگ جاتے ہیں۔ مولانا محمد نعمان بخاری کا کہنا ہے کہ کوئی شک نہیں کہ نماز بے حیائیوں اور منکرات سے دور کر دیتی ہے لیکن ہماری نمازیں ہمیں برائیوں سے کیوں نہیں روک رہیں؟ وجہ کیا ہے ،اس لیے کہ ہم نماز کا صرف ٹوٹل پورا کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔۔ دورانِ نماز بھی خیالات کی اپنی دنیا میں اٹکے ہوتے ہیں۔۔اصل میں ہمیں نماز سے وہ کیفیت مطلوب ہی نہیں جو نماز کا خاصا ہے، ” عبادت ایسے کرو گویا تم اللہ کے روبرو ہو اور اُسے دیکھ رہے ہو اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو تو کم از کم اتنا احساس توضرور ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پنڈلی میں تیر لگا۔۔ نکالنے سے سخت تکلیف ہوتی تھی، مشورہ ہوا کہ جب آپ نماز پڑھیں تو نکال لیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا‘ اور آپ کو معلوم ہی نہ پڑا کہ کب تیر نکالا گیا، اس قدر محویت تھی، یہ حالت نہ سہی، کاش! اس کا کوئی ایک ذرہ تو ہمیں بھی عطا ہو جائے۔اللہ کو عبادات کی مقدار سے کوئی غرض نہیں‘ معیار سے مطلب ہے اور معیار ہے خلوص ،یہی وجہ ہے کہ قیامت والے دن اعمال گنے نہیں جائیں گے بلکہ تولے جائیں گے اس بنا پر ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کا قلب کی گہرائی و خلوص سے ایک مرتبہ سبحان اللہ کہہ دینا دوسرے کی سیکڑوں تسبیحات پر بھاری ہو‘اسی خلوص کے حاصل کرنے کے لیے محنت کرنے کو اپنا تزکیہ کرنا کہتے ہیں‘حصولِ تزکیہ کے بعد حالت کچھ یوں ہو جاتی ہے کہ ہم برائی کے ارادے سے نکلتے ہیں تو نماز راستہ روک لیتی ہے اور اُلٹے قدموں لوٹنے پر اُکساتی ہے‘ ہم رشوت لینے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں تو نماز ہمارا گریبان پکڑ کر ہاتھ جھٹک دیتی ہے۔