کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمدکل 21برس بعد نامکمل کراچی سرکلر ریلوے کا افتتاح کرینگے،کراچی سرکلر ریلوے کوکل 19نومبر سے بحال کردیا جائے گا لیکن مختلف اسٹیشنز پر کام اب بھی باقی ہے۔عوام کو صرف پٹڑی پر ریل کے آنے کا انتظار ہے۔اسٹیشنز اب تک بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمدکل مورخہ 19 نومبر 2020 بروز جمعرات صبح11بجے سٹی اسٹیشن کراچی میں کے سی آر ٹرین کا افتتاح کریں گے۔ ریلوے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان ریلوے نے سرکلر ریلوے کو چلانے سے قبل ہی یوٹرن لے لیا ہے۔پہلے مرحلے میں کراچی سرکلر ریلوے سٹی اسٹیشن سے اورنگی اسٹیشن کے بجائے اب کراچی سٹی سے پپری اسٹیشن تک چلائی جائے گی۔
پاکستان ریلوے نے 20نومبر سے پہلے فیز میں کراچی سٹی اور مارشلنگ یارڈ پپری کے درمیان چلائی جانے والی کراچی سرکلر ریلوے ٹرین کے اوقات کار میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ کراچی سرکلرریلوے (1-Up) ٹرین صبح 7بجے کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہو کرکراچی کینٹ،ڈیپارچر یارڈ،، ڈرگ روڈ، ڈرگ کالونی، ایئرپورٹ ہالٹ، ملیر کالونی، ملیر، لانڈھی، جمعہ گوٹھ، بن قاسم اوربادل نالہ سے ہوتی ہوئی صبح 8بجکر 30منٹ پر مارشلنگ یارڈ پپری ریلوے اسٹیشن پہنچے گی۔
دوسری دفعہ یہ ٹرین کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن سے شام 5بجے روانہ ہو کراسی روٹ سے ہوتی ہوئی شام 6 بجکر30 منٹ پرمارشلنگ یارڈ پپری ریلوے اسٹیشن پہنچے گی۔ جبکہ کراچی سرکلر ریلوے (2-Dn) ٹرین مارشلنگ یارڈ پپری ریلوے اسٹیشن سے صبح 7بجے روانہ ہو کر اسی روٹ سے ہوتی ہوئی صبح 8بجکر 30منٹ پرکراچی سٹی ریلوے اسٹیشن پہنچے گی۔
اسی طرح ما رشلنگ یارڈ پپری ریلوے اسٹیشن سے دوسری دفعہ یہ ٹرین شام 4بجکر 30منٹ پر روانہ ہوکر شام 6 بجے کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن پہنچے گی۔ ان اوقات کارکے مطابق کراچی سرکلر ریلوے ٹرین ابتدائی طور پر20 نومبر سے 30 نومبر 2020 تک چلے گی۔واضح رہے کہ یہ ٹرین یک طرفہ چار ٹرپ کی بجائے دن میں دو ٹرپ مکمل کرے گی۔
دوسری جانب ریلوے ٹریک کے راستوں میں ابھی تک پھاٹک نہیں لگائے گئے ہیں، گلبائی اور دیگر کئی مقامات پر روڈ کی کراسنگ پیچیدہ مسئلہ بناہوا ہے، کراسنگ کے مقامات پر عارضی طور پر رسی یا زنجیر سے ٹریفک کو روکنا ہوگا۔دوسری طرف تشویش ناک امر یہ ہے کہ سٹی اسٹیشن سے اورنگی ٹاؤن تک بیشتر لیول کراسنگ پر پھاٹک موجود نہیں ہیں، گلبائی چوک پر ٹرین 200 میٹر کا فیصلہ بغیر پھاٹک کے عبور کرے گی۔
سرکلر ریلوے کا ٹریک کئی مقامات پر انتہائی مخدوش اور خطرناک بھی ہے جس پر اب تک توجہ نہیں دی گئی ہے۔ٹریک خراب ہونے کے سبب ٹرین 15 سے بیس کلو میٹر تک فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ نہیں چلائی جاسکتی ہے۔یاد رہے کہ12نومبر کو سرکلر ریلوے کی پٹڑی پر آزمائشی ٹرین چلائی گئی تھی، لیکن ٹریک کی حالت خراب ہونے کے باعث آزمائشی ٹرین نے منٹوں کا فاصلہ 2 گھنٹے میں طے کیا تھا۔
کراچی سرکلرریلوے 21برس بعد بحال ہونے جارہی ہے۔لیکن ناظم آباد اورنگی اسٹیشن سے لے کر ٹاور اسٹیشن تک کا ٹریک 13 کلومیٹر طویل اور بوسیدہ ہے۔ انجن کو اسٹارٹ ہونے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور اس ٹریک پر8اسٹیشن اور 14 لیول کراسنگ ہیں۔اس وجہ سے یہاں ٹریک پر ٹرین کی رفتار 15 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔
کراچی سرکلر ریلوے چلنے کی صورت میں مصروف اوقات میں غنی چورنگی،گلبائی،ماڑی پوراورویسٹ وارف پرٹریفک جام کاخدشہ ہوگا۔اورنگی اسٹیشن سے ٹاور تک کسی لیول کراسنگ پرکوئی پھاٹک یاسگنل نہیں ہے۔
ریلوے حکام نے بتایا ہے کہ ریلوے اسٹیشن،پھاٹک اورسگنل کی مرمت کیلیے20 کروڑ روپے کے ٹینڈرکیے ہیں۔مگر عملی طور پر کے سی آر اسٹیشنوں تاحال پر کسی قسم کے انتظامات نہیں کیے جاسکے ہیں۔اسٹیشنوں پر نہ صفائی کے انتظامات ہیں نہ ہی عملہ تعینات کیا گیا ہے۔اسٹیشنوں پر انتظارگاہیں بنائی گئیں اور نہ ہی ٹکٹ گھر بنائے گئے ہیں۔بعض اسٹیشنوں پر ریلوے پھاٹک اور ٹکٹ گھر کی سہولت بھی موجود نہیں ہے اکثر اسٹیشنوں پر مسافروں کے لیے انتظار گاہ کا بھی کسی قسم کا کوئی انتظام نہیں ہے،پیپری سے سٹی اسٹیشن تک مین ریلوے لائن ہے جبکہ اورنگی ٹاؤن سے سٹی اسٹیشن تک لوپ لائن ہے جہاں ٹریک کی حالت انتہائی خراب ہے وزیر مینشن ریلوے اسٹیشن سے اورنگی ٹاؤن اسٹیشن کے درمیان ریلوے ٹریک کے اطراف کچرا کنڈیاں بنی ہوئی ہیں۔
سروے کے دوران یہ بات آئی کہ کئی مقامات پر ریلوے ٹریک زمین میں دھنسا ہوا ہے جبکہ بیشتر مقامات پر ریلوے ٹریک کچرا کنڈی میں تبدیل ہوگیا ہے مچھر کالونی،وزیر مینشن،اورنگی ٹاؤن سمیت دیگر مقامات پر کئی جگہوں سے ریلوے پٹری زنگ آلود ہوچکی ہے اورنگی ٹاؤن اسٹیشن کا ٹکٹ گھر کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔
ٹکٹ گھر کا کوئی دروازہ اور نہ ہی کھڑکی ہے کمرہ تباہ ہوچکا ہے جو نشئی افراد کی آماجگاہ بن چکا ہے ٹکٹ گھر میں غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں پلیٹ فارم رکشوں اور سوزوکیوں کا اڈہ بنا ہوا ہے کئی مقامات پر پلیٹ فارم بھی ٹوٹ پھوٹ چکا ہے،بعض مقامات پر ریلوے لائن سے محض 10 فٹ کے فاصلے پر تجاوزات قائم تھیں جنھیں تاحال ہٹایا نہیں جاسکا ہے۔اس حوالے سے پاکستان ریلوے کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے بعد سرکلر ریلوے منصوبے کا ٹھیکا فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو دے دیا گیا ہے،24 بریجز لیول کراسنگ سندھ حکومت نے بنانے ہیں اور ایف ڈبلیو او کو ٹھیکا دے دیا ہے۔،ٹکٹ بھی ٹرین کے اندر سے ٹکٹ چیکر سے ملے گا۔
دوسری جانب کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے شہریوں نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سخت احکامات کے بعدکراچی سر کلر ٹرین چلا کرجان چھوڑانے کی کوشش کی جارہی ہے جس طرح سرکلر ریلوے چلنی چاہیے اس طرح سے نہیں چلائی جا رہی ہے انہوں نے اپنی تیاری بھی مکمل نہیں کی ہے اور ریل کی پٹریوں کو بھی مکمل طور پر درست نہیں کیا جاسکاہے، سیکورٹی کے حوالے سے انتظامات نہیں کیے گئے ہیں جبکہ بعض مقامات پر ریلوے پھاٹک بھی نہیں بنائے جاسکیں ہیں جس سے حادثات کا خدشہ موجود ہیں۔
شہریوں کا کہنا تھا کہ اس طرح سرکلر ریلوے نہیں چلتی ہے جس طرح سے اسے چلایا جارہا ہے،شہریوں کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سخت حکم اورآج 20نومبر کو ہونے والی سماعت سے ایک دن قبل سرکلر ریلوے چلا کر وفاق اپنی جان چھوڑانے کی کوشش کررہا ہے،عدالت عظمی کو ازخود اس نامکمل سرکلر ریلوے کے حوالے سے نوٹس لینا چاہیے تاکہ شہری ایک اچھے اور حفاظتی انتظامات کے ساتھ سرکلر ریلوے میں سفر کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح لاہور میں اورینج ٹرین چلائی گئی ہے اسی طرح شنگا پور،دبئی،ٹوکیو اور چین سمیت دیگر ممالک میں عوام کی سفری سہولت کے لیے ٹرین چلتی ہے اسی معیار کے مطابق کراچی میں بھی ٹرین چلنی چاہیے تھی لیکن لگا تا یہ ہے کہ سرکلر ریلوے چلاکر عوام کو دھوکہ دیا جارہا ہے، پہلے ہی کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔