کراچی (رپورٹ/ محمد علی فاروق) امریکا بھارت دفاعی معاہدے کا مرکز چین ہے، حالیہ معاہدوں سے امریکا اوربھارت میں اتحاد نہیں بلکہ کچھ چیزوں پر اتفاق ہوا ہے۔ امریکا بھارت معاہدہ ہائبرڈ جنگ کا حصہ ہے تاکہ سی پیک کے خلاف کام کیا جائے۔ امریکا بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانا چاہتا ہے۔ امریکا ،آسٹریلیا،بھارت اور جاپان خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رورسوخ کو روکنے کے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔ پاکستان ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کرایک نیا اتحاد قائم کرے تاکہ علاقے میں طاقت کا توازن برقرار رہے ۔ہوش مند قومیں اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں تو بیرونی طاقتیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری ،معروف دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر)طلعت مسعود، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری امیر العظیم، کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق چیئر پرسن ڈاکٹر طلعت اے وزارت اور سابق رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر
مونس احمر نے روزنامہ جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے ۔اس کی افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے اور ہم ایک نیوکلیئر طاقت بھی ہیں 1971ء کے علاوہ بھارت آج تک ہم سے کوئی جنگ نہیں جیت سکا ہے۔ انہوںنے کہا کہ بھارت کی پالیسیوں نے اسے دنیا میں تنہا کردیا ہے ۔وہ پہلے ایک جمہوریت پسند ملک سمجھا جاتا تھا لیکن وہاں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے وہ دنیا نے دیکھ لیا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم بھی دنیا کے سامنے ہیں۔ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ لداخ کے معاملے کے بعد بھارت کے لیے مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ اب اسے چین پاکستان کی شکل میں 2 طاقتوں کا سامنا ہے۔ بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا ہوگا ۔ اگر اس نے سی پیک کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تو اسے دو طرفہ جنگ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان میں حقیقی معنوں میں بیرونی نہیں اندرونی خطرات زیادہ ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت میں اتحاد نہیں ہے ۔ہمیں ہر صورت میں اپنے اتحاد کو برقرار رکھنا ہوگا ۔ہوش مند قومیں اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں تو بیرونی طاقتیں ان کا کچھ نہیں بگاڑسکتی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر)طلعت مسعود نے کہا کہ بھارت اور امریکا کا اسٹریٹجک معاہدہ ہوا ہے ،اس کا مرکز چین ہے پاکستان کو اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہیں۔ چین اس صورت حال کا سامنے کرنے کے لیے تیار ہے ۔انہوںنے کہا کہ امریکا چین کو ہر طریقے سے کمزور کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔اس لیے وہ بھارت کو مضبوط بنارہا ہے، چین کو اس بات کا بخوبی علم ہے ۔وہ اپنے دفاعی اور معاشی حالات کو بہتر کررہے ہیں۔ انہوںنے چین اور پاکستان کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔دوسرے ممالک کو شامل کرکے کوئی نیا بلاک بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے ۔اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا ۔ چین اور پاکستان خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں ۔پاکستان کی دفاعی صلاحیت کی پوری دنیا معترف ہے ۔جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری امیر العظیم نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی کو ہمیشہ بھارت سے خطرات رہے ہیں ۔اس نے کبھی ہمیں حقیقی معنوں میں تسلیم نہیں کیا ہے ، پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کو امریکا نے کبھی روکنے کی کوشش نہیں کی اور ہمیشہ اس کی سرپرستی کی ہے۔ بھارت نے اس خطے میں روس کی دوستی سے بھی فائدہ اٹھایا ہے اور امریکا سے بھی فوائد اٹھائے ہیں۔ امریکا برصغیر میں بھارت کی تھانیداری قائم کرنا چاہتا ہے ۔بھوٹان پر اس نے قبضہ کیا ۔مالدیپ میں بھی ایک مرتبہ فوج اتارچکا ہے جبکہ سری لنکا میں بھی اس کی مداخلت واضح ہے۔ ان معاملات پر پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی فورمز پر تواتر کے ساتھ آواز اٹھانی چاہیے تاکہ بھارت کے مکروہ چہرے پر نام نہاد جمہوریت کا جو پردا پڑا ہوا ہے اس کو اتاراجائے اور اس کا خونی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔ انہوںنے کہا کہ سی پیک منصوبہ خطرے کی زد میں ہے، بلوچستان میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘کی کارروائیاں جاری ہیں اور وہ خطے میں اپنی شراتوں کے باعث فساد برپارکھنا چاہتا ہے۔امیر العظیم نے کہا کہ حکومت پاکستان کوچاہیے بھارت کے حوالے سے اپنی دو ٹوک پالیسی واضح کرے۔ اس ضمن میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق چیئر پرسن ڈاکٹر طلعت اے وزارت نے کہا کہ بھارت امریکا کا گٹھ جوڑ کافی عرصہ سے چل رہا ہے ، اب نوبت اسلحہ کی خریدو فروخت او رخفیہ معلومات کے تعاون تک پہنچ چکی ہے ،امریکا خطے کی جاسوسی کر کے معلومات بھارت کے حوالے کرے گا ، بھارت کو چین کے مقابلے کے لیے کھڑ ا کیا جارہا ہے، چین بھارت سے باآسانی مقابلہ کر سکتا ہے ، اس حوالے سے پاکستان کی سیکورٹی کو کافی خدشات لاحق ہیں، بھارت سے معاہدے کر کے امریکا پاکستان کو دباؤمیں لینا چاہتا ہے، امریکی طالبان سے بات چیت کرنے کے لیے پاکستان کے پیچھے لگے ہوئے تھے ، جیسے ہی انکا مفاد ختم ہوا تو پاکستان سے رویے تبدیل کر لیے، امریکن کانگریس نے بھی صاف صاف کہا ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کو سہولیات فراہم کی جائیں ، امریکا اب سندھ میں بھی لسانیت کی آڑ میںشورش بر پا کرنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جاسکے، یہ ہائبرڈ جنگ کا حصہ ہے ، تاکہ سی پیک کے خلاف کام کیا جائے اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کر کے گوادر میں مسائل کھڑے کیے جائیں۔انہوںنے کہا کہ امریکا اور بھارت علیحدگی پسندوں کے ذریعے ملک میں گڑ بڑ کرا نا چاہتے ہیں ، اِسی مقصد کے لیے بھارت کو سرگرم کیا گیا ہے ، سی پیک کو نقصان پہنچانے کا مطلب پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا ۔پروفیسر طلعت وزارت نے کہا کہ امریکا نے عر ب ریاستوں پر حملہ کیا تھا تو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو بہانہ بنایا اور جھوٹ کی بنیاد پر اس نے حملہ کیا، اب وہ پاکستان کے پیچھے لگا ہوا ہے، گزشتہ عرصے میں امریکن وفد پاکستان آیا تھا اور انہوں نے واضح طور پر پاکستان کو کہا تھا کہ پاکستان سی پیک سے نکل جائے تواس کی مالی امداد کی جائے گی لیکن پاکستان نے اس پیشکش کو مسترد کردیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ چین اور بنگلہ دیش بھی ایک دوسرے سے قریب آرہے ہیں جبکہ نیپال اور دیگر ممالک سے بھی چین کے اچھے تعلقات ہیں جبکہ امریکا کے دیگر ممالک سے تعلقات کچھ اچھے نہیں ہیں، ایشیا پیسیفک کے اجلاسوں میں چین پاکستان کی مدد کر تاہے،بھارت روس سے ہتھیار خریدتا تھا ، اس لیے امریکا نے بھارت کو اعتماد فراہم کرنے کے لیے اپنے دروازے بھارت کے لیے کھول دیے ہیں ، انہوںنے کہا کہ پاکستان کو ان تمام معاملات میں چاہیے کہ وہ چین ، روس ، ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر اسلحے اور خفیہ معلومات کا تبادلے کرے اور ایک دوسرے کی فوجی صلاحیت کو بڑھا نے کے لیے تعاون کا آغاز کیا جائے اس طرح خطے میں توازن پیدا ہوگا۔ سابق رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ حالیہ معاہدوں سے امریکا بھارت میں اتحاد نہیں ہوا بلکہ کچھ چیزوں پر اتفاق ہوا ہے، مائیک پومپیوکے دورے کے بعد سے 4ممالک امریکا ، آسٹریلیا ، جاپان اور بھارت میں کچھ معاملا ت پر اتفاق ہوا ہے ، یہ چاروں ممالک خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو روکنے کے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان کے امریکا سے تعلقات 1950ء کی دہائی سے ہیں،پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ 1991 ء کی سرد جنگ اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکا اور بھارت قریب آئے ہیں،جارج ڈبلیو بش نے 2005ء میں بھارت سے معاہدہ کیا ہوا تھا ، اس حوالے سے پاکستان کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ، پاکستا ن اگراندرونی طور پر مضبوط ہے تو اس کو غیر محفوظ ہونے کی ضرورت ہی نہیں پاکستان کو کسی قسم کی تشویش میں مبتلا ہونا نہیں چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ امریکا اور بھارت جب قریب آئیں گے تو اس سے سی پیک منصوبے کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ پاکستان کو ہمیشہ امریکی دباؤ کا سامنا رہا ہے، جسے وہ کافی حد تک برداشت بھی کرتا رہا ہے، پاکستان نے یہ کبھی نہیں کیا کہ امریکا کی ہر بات من و عن تسلیم کرلے مگر ظاہر ہے کہ جھکاؤ تو امریکا کی جانب ہی رہا ہے،امریکا میں الیکشن کے بعد نئی انتظامیہ کے آنے کے بعد تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام معاملا ت سے نبرد آزماہونے کے لیے پاکستان کو اپنے اندرونی خلفشار پر قابو پانا ہوگا جبکہ ہم خیال ممالک کو بھی اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کیا جائے۔اگر پاکستان اندرونی معاملات میں مستحکم ہوگا تو پاکستان کو کسی قسم کے کوئی خطرات لاحق نہیں ہوسکتے۔