سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ، اسٹبلشمنٹ نے متوازی نظام قائم کیا ہوا ہے

658

 

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بار بار مارشل لا لگائے جانے، سیاسی جماعتوں کی موروثی سیاست اور اقتدار کے لیے عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ مد د لینے کی بناپر گہرا ہوا، اسٹیبلشمنٹ کو بھی منی ٹریل دینی چاہیے ،قیام پاکستان کے وقت سے ہی غیر منظم سیاسی جماعتیںمنظم اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ نہ کرپائیں ، سیا ست دانوںکو بمبینو سینما سے بے پناہ دولت تک کے سفر پر جوابدہ تو ہونا پڑے گا، سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوریت نہیں،اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی جمہوری نظام کے متوازی اپنا نظام قائم کیا ہو ا ہے ، مال کے ذریعے سیاست اور مال کے لیے سیاست نے جمہوری نظام کو نقصان پہنچایا، اداروں اورسیاسی جماعتوں دونوں کو اپنا کردار آئین اور قانون کے مطابق ادا کرنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار نائب امیر جماعت اسلامی
پاکستان ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، مسلم ن لیگ کے رہنماسابق سینیٹر نہال ہاشمی ، جامعہ کراچی شعبہ سیاسیات کی چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹر ثمر سلطانہ اور معروف صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے جسارت سے گفتگو میں کیا۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی نے جسارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ کے گملے میں اگنے والی غیر فطری سیاسی قیادت ہی اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے سیاسی کردار کی وجہ ہے ،ان سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر کوئی جمہوریت یا اندرونی انتخابات کا نظام نہیں ہے ،ان کی جماعتوں کی قیادت وصیتوں، باپ کے بعد بیٹی اور ماں کے بعد بیٹے کی بنیاد پر بدلتی ہے۔ معراج الہدیٰ صدیقی کاکہناتھاکہ موجودہ صورتحال مال کی بنیاد پر سیاست کرنے، سیاست کی بنیاد پر مال بنانے والے سیاسی لیڈروں کی وجہ سے پیدا ہوئی،ان کا کہنا تھاکہ بمبینو سینما سے بے انتہا دولت تک کے سفر پر جوابدہ تو ہو نا پڑے گا، نائب جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے تمام ممالک کی سیاست میں کسی نہ کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کا کردار موجود ہوتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کہ امریکا کے ہر معاملے میں پینٹاگون اہم کردار ادا کرتا ہے، تاہم ان کا کہنا تھاکہ یہ کردار قا نونی دائرے اور کچھ نومز کے اندر ہونا چاہیے، سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی منی ٹریل دینی چاہیے ، مسلم لیگ(ن) کے رہنما سابق سینیٹر نہال ہاشمی کا جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہناتھاکہ قیام پاکستان کے ساتھ پہلے سول بیوروکریسی نے پاکستانی سیاست پر قابو پانے کی کوشش کی جس کو دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ بھی اس ڈور میں شامل ہوئی اور پھر سیاسی جمہوری عمل کو کچلنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا جو اب تک جاری ہے۔ نہال ہاشمی کامزیدکہنا تھاکہ پاکستان کے جمہوری عمل کو مسلسل سبوتاژ کیا جاتا رہا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پرچڑھائے جانا ، مولانا سید ابواعلیٰ مودوی اور مولانا عبدالستار نیازی کو قادیانی مسئلے کی آڑ میں فوجی عدالت کی جانب سے موت کی سزا سنائے جانا دراصل ملک میں سیاسی جمہوری عمل کو پنپنے سے روکنا تھا۔ جامعہ کراچی شعبہ سیاسیات کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر ثمر سلطانہ نے نمائندہ جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان میں جمہوری سیاسی عمل کے متوازی اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا نظام چلتارہی، غیر منظم سیاسی جماعتیں منظم اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ نہ کرسکیں اور ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے اثرات میں اضافہ ہوتا رہا، اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار ہونے والے سیاسی و جمہوری عمل میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت اوران کے گہرے اثرات کے ذمے دار ہیں، جو حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آتی ہے وہ کس طرح آزادنہ طور پر حکومت چلا سکتی ہے ساتھ ہی ا س کا ایک سبب جمہوری حکومت کے پاس اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے قوت نافذہ کا نہ ہونا بھی ہے ایک منتخب جمہوری حکومت کو اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مد د درکار ہوتی ہے ،جس کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کے اثرات بڑھتے جاتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ثمر سلطانہ کا مزید کہنا تھاکہ موروثی سیاست نے پاکستان کے سیاسی و جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا اس عمل سے باصلاحیت اور قیادت کی اہلیت رکھنے والے افراد کو سیاسی عمل سے دور کردیا، اس کا بھی براہ راست فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو ہوا، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں سیاسی عمل کو کبھی بھی تسلسل کے ساتھ چلنے بھی نہیں دیاگیا، ان کا کہنا تھا کہ ملک کی غیر منتخب حکومتیں تو دس دس گیارہ گیارہ برس چل جاتی ہیںجبکہ جمہوری حکومتوں کی بساط وقت سے پہلے لپیٹ دی جاتی ہے، جب غیر منتخب حکومت ایک ایک دہائی کا وقت گزار کر جاتی ہے تو اس کے اثرات کئی دہائیوں تک رہتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری صورتحال پر نظر رکھنے والے ممتاز صحافی رفعت اللہ اورکزئی نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ 1958ء میں پاکستان میں پہلا مارشل لا لگاجس کے بعد ہرتھوڑی مدت کے بعد میں مارشل لا لگائے جاتے رہے جس کے نتیجے میں سیاسی اور جمہوری عمل کو نقصان ہوا اور فائدہ اسٹیبلشمنٹ کو ہوا، سیاسی جماعتوں نے بھی اقتدار میںآنے کے لیے عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لیا جس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔ا نہوں نے ملک کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ کسی سیاسی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کا آمنے سامنے کھڑے ہونا جا نا ملکی مفاد میں نہیں ہے، سیاسی جماعتوں اور اداروں کو اپنے رویوںپر غور کرنا چاہیے ،رفعت اللہ اورکزئی کا کہنا تھا کہ اداروں اور سیاسی جماعتوں کو اپنے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔