سود: معیشت کے لیے کینسر!

612

اسلام دین فطرت ہے اور زندگی کا ایک جامع نظام پیش کرتا ہے جس پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنوارسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل کی گئی اپنی آخری کتاب کا آغاز ہی (لاریب فیہ) سے کیا ہے کہ قرآن پاک میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں اور یہ کتاب انسانیت کو وہ راہ دکھا تی ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمادیا کہ تم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو۔ یعنی کلمہ پڑھ کر اسلام کے دائرے میں داخل ہونے والوں کواللہ اور اس کے رسول ؐ کی ہدایات اور احکامات پر ہی چلنا ہوگااس میں اپنی مرضی کرنا اسلام کے بنیادی تقاضے سے انحراف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی تباہی اور بربادی کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کو اچھائی کا راستہ بتانا اور خود اس پر عمل نہ کرنا بیان فرمائی ہے۔ بنی اسرائیل اللہ کی کتاب کے ان احکامات پر تو عمل کرتے تھے جنہیں وہ اپنے مفاد میں سمجھتے تھے اور جو مفاد کے خلاف ہوتا اس کو نظر انداز کر جاتے تھے۔ غور کیا جائے تو اس وقت ہمارا عمومی رویہ بھی کچھ اسی طرح کا ہوچکا ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کو طویل غلامی کے بعد اللہ تعالیٰ نے آزادی کی نعمت دی۔ اس آزادی کے لیے ہمارے اسلاف نے کیا قربانیاں دیں اور کس طرح آگ و خون کے دریا سے گزرکر وہ پاکستان پہنچے یہ ہماری قومی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ پاکستان کے 73سال کے سفرکو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اپنی منزل کو کھودیا ہے۔ ترقی و خوشحالی کے جو بنیادی اشاریے ہوتے ہیں وہ سب کے سب منفی ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں چار بنیادی عناصر معیشت، امن و امان، عدل وانصاف اور خارجہ امور نہایت اہم ہوتے ہیں۔ موجودہ ملکی صورتحال کو ان عناصر کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہر طرف ایک گہری تاریکی ہے جس میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ معیشت تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے۔ روپیہ اپنی بے قدری کے سارے ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ سال ہا سال سے جنگ کی آگ میں جھلسنے والے افغانستان کی کرنسی کی قدر ہمارے روپے سے بہترہے۔ بھوٹان، سری لنکا، نیپال سب ہم سے آگے چلے گئے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ کاغذ کا ایک بے وقعت ٹکڑا بن کر رہ گیا ہے۔ موجودہ حکومت نے معیشت کو اس کے پائوں پر کھڑا کرنے کے بڑے دلفریب وعدے کیے تھے مگر اس نالائق حکومت نے معیشت کی گاڑی عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور (ورلڈ بینک) کے حوالے کردی ہے۔ آئی ایم ایف پہلے دن سے ہماری معیشت کی گاڑی کو بیک گیئر میں چلارہا ہے۔ ورلڈ بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وقت شرح نمو صفر اعشاریہ چار (0.4) فی صد ہے جس سے غربت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اس عرصہ میں ڈیڑھ کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے لڑھک گئے ہیں۔ جب پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی اس وقت شرح نمو پانچ اعشاریہ سات کی سطح پر تھی۔ مہنگائی گیارہ فی صد سے اوپر چلی گئی ہے۔ اشیائے ضروریہ آٹا، چینی، گھی اور دالیں جو ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہیں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں بھی تقریباً تین سو گنا تک اضافہ ہوگیا ہے۔
معیشت کی تباہی کی اس صورتحال کو عمیق نظروں سے دیکھا جائے تو تمام خرابیوں کی جڑ سودی نظام معیشت ہے۔ پاکستان پر اس وقت سو ارب ڈالر سے زیادہ کا قرضہ ہے جس نے پوری معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ ملک کی کل جی ڈی پی 7500ارب روپے ہے جس میں سے 2900 ارب سود کی ادائیگی میں چلاجاتا ہے جو کل آمدن کا انتالیس اعشاریہ سات فی صد بنتا ہے۔ اگرکسی ملک کی آدھی آمدنی سود کی ادائیگی میں چلی جائے، وہ آگے کیسے بڑھ سکتا ہے؟
اس وقت امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا کے 75ممالک میں اسلامی بینکاری جاری ہے اور حیرت انگیز طور پر غیر مسلم بھی اس سے استفادہ کررہے ہیں۔ برطانیہ کے جس بینک نے اسلامی بینکاری کا آغاز کیا تھا اس میں سب سے پہلا اکائونٹ ایک غیر مسلم نے کھلوایا اور اب اس بینک کی 14شاخیں قائم ہوچکی ہیں۔ ملائشیا کے اسلامی بینکوں میں چالیس فی صد سے زائد کھاتہ دار غیر مسلم ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ ہمارے ہاں اس پر زیادہ پیش رفت نہ ہونے کی اصل وجہ ملک میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا معیشت پر کنٹرول ہے۔ آئی ایم ایف نے اژدھے کی طرح معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ سود پر قرضے دینے والے یہ کیسے پسند کرسکتے ہیں کہ ان کا کاروبار بند ہوجائے۔
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
سود کے حرام ہونے پر کسی دلیل کی ضروت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں، ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر بائولا کردیا ہو۔ اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں تجارت بھی تو آخر سود جیسی ہی چیز ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف سے نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے سود خوری سے باز آجائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا سوکھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ سود کی جڑ کاٹ دیتا ہے اور صدقات کی نشو ونما کرتا ہے۔ اور اللہ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ البقرہ: 275-76) عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سود کے گناہ کے 73درجے ہیں جن میں سے کمترین درجہ یہ ہے کہ جیسے کوئی اپنی ماں سے بدکاری کرتا ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 72سال پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر بلاسود معیشت کا اعلان کیا تھا۔ مگر بانیٔ پاکستان کے اس حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے ہم نے پون صدی گزار دی۔ دستور پاکستان کی دفعہ ایف 38میں دوٹوک حکم دیا گیا ہے کہ ریاست جتنی جلد ممکن ہو، ربا کو ختم کرے گی لیکن چالیس سال سے حکمران دستور کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی درخواست پر وفاقی شرعی عدالت نے 1991 میں سود کے خاتمے کا فیصلہ دیا تھا جس کے خلاف اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اپیل کردی۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے بھی مسلم لیگ ن کی اپیل کی پیروی کی ہے اور اپنے وکیل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ یعنی ان تیس سال میں حکومتیں تو بدلتیں رہیں مگر ان کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تیس سال سے ریاست نے عدالتی احکامات کو بھی پس پشت ڈا ل رکھا ہے۔
اسلام اپنے ماننے والوں سے عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات کی بھی درستی کا تقاضا کرتا ہے۔ معاشی مشکلات میں جہاں صبر و استقامت کا حکم دیا گیا ہے وہیں ان مشکلات سے نکلنے کے کئی راستے بھی بتائے گئے ہیں۔ نبی کریمؐ کے پاس ایک انتہائی تنگ دست صحابیؓ حاضر ہوئے اور عرض کی کہ صدقہ کا مستحق ہوں آپؐ نے پوچھا تمہارے پاس گھر میں کچھ ہے؟ صحابیؓ نے ایک پیالہ اور اسی طرح کی کوئی معمولی چیز پیش کردی، آپؐ نے فرمایا جائو اسے بازار میں بیچ کر ایک کلھاڑی خرید لائو۔ آپؐ نے اپنے دست مبارک سے کلہاڑی میں دستہ ڈال دیا اور فرمایا جائو اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچو۔ کچھ عرصہ بعد وہ صحابیؓ دوبارہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اب وہ مطمئن اور خوشحال تھے۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے ایک نابینا صحابیؓ کو دیکھا تو آپؓ نے بیت المال کے ذمے دار کو حکم دیا کہ اس نابینا کے لیے بیت المال سے ماہانہ وظیفہ مقرر کردیا جائے۔ ریاست محتاج اور نادار شہریوں کی کفالت کی ذمے دار ہوتی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ریاست خود خوشحال ہو۔ دورِ حاضر کی سودی معیشت کو دوبارہ غیر سودی معیشت میں تبدیل کرنا آسان کام نہیں مگر ممکن ضرور ہے۔ اگر ہم حامل قرآن ہو جائیں تو اسلام کی گم گشتہ معاشی جنت کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا
جب اللہ کا حکم ہے کہ اسلام میں مکمل داخل ہوجائو تو اس میں معیشت بھی شامل ہے۔ سرکار دوجہاںؐ نے سودی نظام کے خاتمے کا اعلان کیا تو ساتھ ہی دنیا کو ایک متبادل معاشی نظام بھی دیا۔ عشر وزکواۃ کا نظام نافذ کرنا اسلامی حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔ خلیفہ اول نے ان لوگوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا جنہوں نے آپؐ کی رحلت کے بعد زکواۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ قرآن کریم میں زکواۃ کی رقم خرچ کرنے کے لیے مدات کا ذکر ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے تو اللہ ان پرآسمان کی رحمتوں اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا۔
باقی صفحہ7نمبر1
سینیٹر سراج الحق
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست سودی نظام کے خاتمہ کے لیے اپنی آئینی اور اسلامی ذمے داریاں پوری کرے۔ اسٹیٹ بینک نے اسلامی بینکاری کے لیے ایک ڈپٹی گورنر تو مقرر کیا ہے لیکن سودی معیشت کے خاتمہ کا واضح روڈ میپ نہیں دیا جو دیا جانا ضروری ہے۔ حکومت کی طرف سے دوٹوک اعلان ہوجانا چاہیے کہ کب تک آئین کی ان دفعات پر عمل درآمد ہوجائے گا جس کے ذریعے سودی نظام کا خاتمہ اور اسلامی نظام معیشت قائم ہوجائے۔