جیسے جیسے امریکی انتخابات کے آخری مراحل قریب آرہے ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود اعتمادی کھوتے اور تناؤ کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے بیشتر ریاستوں نے ووٹرز کو بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالنے کا مشورہ دیا ہے، جس پر ٹرمپ نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انتخابات کی شفافیت پر قبل از وقت سوالات اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے نزدیک کسی ناپسندیدہ فیصلے یعنی ڈیموکریٹس کی فتح کی صورت میں اقتدار کی پر امن منتقلی کی ضمانت نہ دینے کا ابھی سے عندیہ دے دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے برملا کہا کہ امریکی انتخاب کے نتائج سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جاسکتے ہیں۔ اب جب کہ امریکی انتخابات میں صرف چند روز ہی رہ گئے ہیں اور صدر کے حریف ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کا پلڑا بھاری ہے، ٹرمپ بہت بے باک انداز میں ووٹوں کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل 2016ء کے انتخابات میں بھی ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کے خلاف الیکشن کے نتائج سے متعلق سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جو بائیڈن اس حوالے سے ٹرمپ کے رویے کو غیر منطقی قرار دیتے ہیں جب کہ ان کے انتخابی منتظمین کسی بھی شرارت سے نمٹنے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں۔ بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالنے کے عمل پر بے اعتمادی کے حوالے سے ٹرمپ کے موقف سے خود امریکا کے وفاقی الیکشن کمشنر ایلن وینتراب بھی متفق نظر نہیں آتے۔ انہوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ اس سازشی نظریے کی کوئی بنیاد نہیں کہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے سے دھوکا دہی ہوگی۔ بہر حال اس بات کا واضح امکان نظر آتا ہے کہ اس بار امریکا کے انتخابی نتائج امریکا کی
انتخابی تاریخ میں نئے اور چونکا دینے والے باب رقم کریں گے ۔
جاپان تنازعات جلد حل کرنے کی راہ پر
اقبال برما
جاپانی وزیراعظم سوگا علاقائی سطح پر موجود بہت سے قضیوں کو اپنی بہترین ڈپلومیسی اور شاندار خارجہ پالیسی کے ذریعے بڑی حد تک حل کرنے میں کوشاں ہیں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جاپان کے جہاں چین کے ساتھ چند سرحدی تنازعات ہیں، وہیں روس کے ساتھ بھی کچھ امور پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ سوگا نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد بین الاقوامی رہنماؤں سے ٹیلیفونک رابطے شروع دیے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بڑی پیش رفت روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے ان کی حالیہ گفتگو بھی ہے۔ واضح رہے کہ جاپان کے روس کے ساتھ کورل جزائر کے معاملے میں شدید اختلافات ہیں اور دونوں ممالک ان جزائر کی ملکیت کے دعوے دار ہیں۔ جاپان کا موقف ہے کہ ان جزائر پر 1945ء کے بعد روس نے قبضہ کر لیا تھا۔ 1956ء میں کشیدگی کو معمول پر لانے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان ایک مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا تھا، جس کے تحت روس نے اس معاملے کو ایک فارمولے کے تحت حل کرنے کی پیشکش کی تھی کہ دو جزائر شیکوتان اور کوناشیری جاپان کو واپس کردیے جائیں جبکہ جاپان نے بھی 2 جزائر سے متعلق اپنے کمزور موقف کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے دستبردار ہونے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ یہ مسئلہ حل ہونے ہی جارہا تھا کہ امریکا نے اس معاہدے کو یہ کہ کر سبوتاژ کردیا کہ اس کے نتیجے میں اوکی ناوا پر روسی تسلط قائم ہوجائے گا۔ سابق وزیراعظم شنزو آبے کے دور حکومت میں ایک بار اس جانب پیش رفت ہوئی اور دونوں ممالک 2018ء میں پرانے معاہدے کی جانب آگے بڑھنے پر آمادہ نظر آئے۔ تازہ ترین عالمی صورتحال میں امریکی حکومت کا موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا لیکن ٹرمپ کی جانب سے جاپان کے دفاع کے حوالے سےپالیسی اسٹیٹمنٹ کے بعد شاید جاپان پر امریکی دباؤ کم ہونے کی وجہ سے کچھ بہتر صورتحال کی جانب پیش رفت کی توقع کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے جاپانی وزیر اعظم کی یہ تجویز انتہائی اہم بتائی جارہی ہے کہ روس کے ساتھ دو طرفہ علاقائی ملکیتی تنازع کو اگلی نسل پر چھوڑنے کے بجائے حل کی جانب بڑھنا بہترین حکمت عملی ہے۔