لاڑکانہ(نمائندہ جسارت) لاڑکانہ میں ٹیڑھے پائوں کے ساتھ بچوں کی پیدائش کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہونے کا انکشاف، ہر ماہ ایک سو سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے آج تک پٹی اور پلسٹر کے علاوہ کچھ نہیں دیا حکومت سندھ نے بروقت سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے تو بچوں میں اپائج پن میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا ۔ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ آرتھوڈوکس جامع بینظیر پروفیسر ضمیر سومرو کی میڈیا سے گفتگو۔ تفصیلات کے مطابق بے بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی میں آرتھوپیڈک کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ پروفیسر ضمیر سومرو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مڑے ہوئے ٹیڑھے پائوں کو ماہرین “کلب فٹس” کہتے ہیں آج تک دنیا نومولود بچوں میں پائی جانے والی اس بیماری کی وجوہات کا پتا نہیں لگا سکی تاہم بروقت علاج سے عمر بھر کی معذوری سے بچا سکتا ہے۔ پروفیسر ضمیر سومرو کا کہنا تھا کہ ٹیڑے مڑے ہوئے پائوں کی بیماری کے علاج کو “پونسیٹی ٹریٹمنٹ” کہتے ہیں اور پاکستان کے چند ایک شہروں میں گنے چنے سینئر پروفیسرز متاثرہ مریضوں کا علاج کر رہے ہیں تاہم گزشتہ 8 سالوں سے وہ خود بھی بالائی سندھ کے سب سے بڑے چانڈکا سول اسپتال مریضوں کا علاج کر رہے ہیں تاہم 8 سالوں کے دوران انہیں سندھ حکومت یا متعلقہ چانڈکا اسپتال انتظامیہ سے سوائے پٹی اور پلسٹر کے کوئی مدد نہیں ملی تمام مریضوں کے علاج کیلیے عملہ تک انہوں نے اپنے نجی پیسوں سے تعینات کیا ہے جبکہ عملے اور پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کو تربیت بھی وہ خود دے رہے ہیں اور ایسے مریضوں کیلیے خاص قسم کے آرتھوپیڈک فٹ ویئرز بنائے جاتے ہیں اور ایسا تمام سامان وہ اپنی نجی جیب سے خرچ کر رہے ہیں ۔پروفیسر ضمیر سومرو کا کہنا تھا کہ چند سال قبل سندھ حکومت نے پونسیٹی ٹریٹمنٹ کے اسپیشلائزڈ سینٹرز بنانے کی بات تو کی تھی لیکن آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سامنے آنے والے مریضوں کے اعداد و شمار پریشان کن ہیں جو کہ اس بیماری میں تیزی سے اضافے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر ہفتے 80 سے 90 مریضوں اور ماہانہ 350 سے زائد مریضوں کو صرف لاڑکانہ سول اسپتال میں علاج فراہم کیا جاتا ہے جن میں سے 1 سو سے زائد کیسز نئے آ رہے ہیں اور یہ صرف ایک اسپتال کا ڈیٹا ہے جبکہ اس علاج سے والدین کی لاعلمی اور حکومتی عدم توجہ کئی بچوں میں عمر بھر کے اپائج پن کا باعث بن رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح تعداد میں اضافہ ہوتا رہا تو پہلے سے انتہائی محدود نجی وسائل میں مریضوں کا علاج ممکن نہیں رہے گا تاہم حکومت اور متعلقہ اسپتال انتظامیہ کو اس بیماری کے مؤثر اور مستقل علاج کیلیے عملی اقدامات اٹھانا ہوںگے۔ پروفیسر ضمیر سومرو کا کہنا تھا کہ نومود بچوں میں یہ بیماری پیدائشی پائی جاتی ہے اور اگر والدین پیدائش کے پہلے ہفتے میں بچے کو اسپتال لے آئیں تو پہلے دو ماہ میں بچہ بالکل ٹھیک سکتا ہے، تاخیر یا تو علاج میں مسائل پیدا کرے گی اور لاعلمی مستقل اپائج پن کا باعث بنے گی عالمی سطح کی ریسرچ کے مطابق اس وقت ہر 8 بچوں میں 2 بچے ٹیڑھے پائوں کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان میں زیادہ تر والدین اس علاج سے لاعلم ہیں اور وسائل کی بھی کمی ہے جس کے باعث کئی بچے عمر بھر اپائج رہ جاتے ہیں۔