والدین ہوشیار رہیںا سکول میں ڈرائے دھمکائے جانے والے بچے پڑھائی میں پیچھے رہ جاتے ہیں‘برطانیہ میں ایک چوتھائی سکول جانے والے بچوں کا کہنا ہے کہ شرارتی بچوں کے ہاتھوں ڈرائے دھمکانے کی وجہ سے ان کی پڑھائی پر برا اثر پڑا اور ان کے گریڈز کم ہوئے ہیں۔
یہ بات 13 سے 18 سال کی عمر کے تقریباً 36,000 طالب علموں سے بات چیت کے بعد تیار کی جانے والی ایک رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔’بُلنگ‘ یعنی ڈرانے دھمکانے کے خلاف کام کرنے والے رضاکار ادارے ’ڈچ دا لیبل‘ کا کہنا ہے کہ ڈرائے دھمكائے جانے والے 56 فی صد بچوں کا خیال ہے کہ اس سے ان کی پڑھائی ۔پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے بچوں کو یا تو ’ڈی‘ گریڈ ملے یا اس سے بھی خراب۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’بُلنگ کے شکار ہر تیسرے بچے نے افسردگی اور بے بسی کے عالم میں خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی بلکہ ان میں سے 10 فیصد بچوں نے تو خود کشی کی بھی کوشش کی۔مطالعہ میں شامل 83 فی صد طالب علموں نے کہا کہ برے سلوک سے ان میں عدم اعتماد پیدا ہوا ہےزیادہ تر بچے سکول میں اپنے ساتھ ہونے والے برے سلوک کے بارے میں بات کرنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں،16سال کی ریبیكا پاركن نے بتایا کہ چھ سال کی عمر سے ہی ان کے ساتھ ’بُلنگ‘ ہو رہی ہےپاركن نے کہا کہ اس وقت ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا اور مایوسی میں وہ سب سے پہلے خود کو ہی نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچتی تھیں۔’میں نے کئی سکول بدلے۔ میں پڑھائی میں بلکل پیچھے رہ گئی تھی۔‘ریبیکا پر بھدے الفاظ، پھبتیوں اور برے سلوک کا ایسا اثر ہوا کہ وہ ’آٹزم‘ نام کی بیماری کا شکار ہو گئیں۔ آٹزم ایک ایسی معذوری ہے جس میں مبتلا فرد دوسروں سے بہت مشکل سے بات چیت کر پاتا ہے، دماغ کی نشونما متاثر ہوتی ہے اور گھبراہٹ کا شکار رہتا ہے۔والدین کواس ماملہ پر نظر رکھنی چاہیے اس کے لیےسکولوں میں اساتذہ کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔