جرائم کی روک تھام

280

ایک لڑکی صحرا میں تھی، وہ زیورات سے آراستہ تھی، ایک مرد کی نیت بدل گئی، اس نے لڑکی کے سر پر ایک پتھر دے مارا، لڑکی بے ہوش ہوکر گر پڑی، مرد نے اوپر سے ایک اور پتھر مار کر اس کا سر کچل دیا اور اس کے زیورات اتار کر چمپت ہوگیا۔ لڑکی کو اٹھاکر لایا گیا، اس میں زندگی کی رمَق باقی تھی، اس سے دریافت کیا گیا کہ اس کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے؟ اس میں بولنے کی سکت نہ تھی، اس کے سامنے ایک مشتبہ شخص کا نام لیا گیا (کہ کیا اس کی حرکت ہے؟) اس نے انکار میں سر ہلایا، دوسرے کا نام لیا گیا تب بھی اس نے انکار میں سر ہلایا، تیسرے کا نام لیا گیا تو اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔ اس کے کچھ دیر بعد لڑکی کی جان نکل گئی، اْس شخص کو پکڑ کر لایا گیا اور اس سے بازپْرس کی گئی۔ اْس پر دباؤ بنایا گیا تو اس نے اپنا جرم قبول کرلیا۔ چنانچہ ٹھیک اسی طریقے سے اْس مرد سے قصاص لیا گیا۔ اسے ایک پتھریلی زمین پر لٹاکر اوپر سے ایک پتھر سے اس کا سر کچل دیا گیا، جیسے کو تیسا… (بخاری:2413 ، مسلم: 1672)
ایک لڑکی اپنی ماں کے ساتھ کھیت میں کام کرنے گئی، چار نوجوانوں نے اسے پکڑا، اسے بْری طرح مارا پیٹا، اس کے ساتھ وحشیانہ طریقے سے بدکاری کی، یہاں تک اس کی جان پر بن آئی۔ اسے داخلِ اسپتال کیا گیا، لیکن وہ اپنی جان ہار گئی۔ اْس لڑکی کے ساتھ یہ گھناؤنی حرکت کرنے والے چاروں نوجوان معروف تھے۔ وہ اس واقعے کے بعد بھی اپنی بستی میں کھلے عام موجود رہے۔ پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ لڑکی مرگئی تو اس کی نعش اس کے گھر والوں کے حوالے نہیں کی گئی، یہاں تک کہ انہیں اس کے آخری دیدار سے بھی محروم رکھا گیا اور پولیس نے نعش اپنے قبضے میں لے کر زبردستی ڈھائی بجے رات کو اسے نذرِ آتش کروادیا۔ اب معلوم ہوا کہ پولیس نے پوری بستی کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور کسی کو بھی، یہاں تک کہ پریس والوں کو بھی وہاں جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔
اوپر دو واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ ایک واقعہ آج سے چودہ سو برس قبل عرب میں مدینہ کی بستی میں پیش آیا تھا، وہاں اسلام کی حکمرانی تھی اور پیغمبرِ اسلام سیدنا محمدؐ کی ذاتِ گرامی بنفسِ نفیس موجود تھی، جرم کرنے والا مرد ایک طاقتور قبیلے (یہود) کا فرد تھا، لیکن جب اس نے جرم کا ارتکاب کیا تو تحقیق کے بعد اور جرم ثابت ہونے پر اس سے قصاص لیا گیا۔ اسے ویسے ہی سزا دی گئی جیسے جرم کا اس نے ارتکاب کیا تھا۔ اس کا طاقتور قبیلہ اسے سزا پانے سے نہ بچا سکا اور نہ اس وقت کے حکمراں نے اس کے ساتھ ذرا بھی رورعایت کی۔ اس کا نتیجہ تھا کہ اس وقت کا کثیر مذہبی سماج امن و امان کا گہوارا بنا ہوا تھا۔ دس برس کے عرصے میں جرم کے اکّا دْکّا واقعات ہی رپورٹ ہوئے اور جو نوٹس میں آئے ان پر فوراً ایکشن لیا گیا اور مجرمین کو قرار واقعی سزا دی گئی۔
دوسرا واقعہ ابھی چند دنوں قبل ریاست اترپردیش کے ضلع ہاتھرس میں پیش آیا ہے۔ مظلومہ لڑکی دلت سماج سے تعلق رکھتی ہے، جسے سماجی طور پر پست اور حقیر سمجھا جاتا ہے اور درندگی کا مظاہرہ کرنے والے نوجوانوں کا تعلق ٹھاکر برادری سے ہے، جسے سماجی طور پر برتر تصور کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ دن دھاڑے پیش آتا ہے۔ مجرم معلوم تھے، لیکن وہ بے خطر گھومتے رہے، کیوں کہ وہ جانتے تھے، کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ امن و امان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مظلوم کی حمایت میں سرگرم ہونے کے بجائے ظالموں کو تحفّظ فراہم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ مظلومہ اور عصمت ریزی اور قتل کا شکار ہونے والی لڑکی کے اہل خانہ کو ڈرا دھمکا رہے ہیں کہ وہ اپنا بیان بدل دیں اور کسی کو نامزد نہ کریں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ تمام شواہد مٹ جائیں، تاکہ مجرموں کے خلاف مضبوط دفعات کے ساتھ مقدمہ ہی قائم نہ ہوسکے اور چند دنوں کے بعد وہ باعزت بری ہوجائیں۔
اگر سماج میں پنپنے والے جرائم کی روک تھام مقصود ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے واقعے کو نمونہ بنایا جائے۔ کوئی جرم سرزد ہو تو فوراً مجرمین کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ وہ کسی بھی سماجی حیثیت کے مالک ہوں، ان کی حیثیت انہیں سزا سے بچانے میں کارگر نہ ہو۔ جرم کا خیال دل میں لانے والے ہر شخص کو معلوم ہو کہ وہ کسی بھی صورت میں اس کی سزا سے نہ بچ سکے گا۔ اگر سزا میں عبرت کا پہلو نمایاں ہو تو وہ دوسرے مجرمین کو ارتکابِ جرم سے باز رکھنے میں مؤثر ہوتی ہے۔ اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ کہنے والوں کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ ان سزاؤں کے علانیہ نفاذ کے ذریعے انہیں دوسروں کے لیے عبرت و نصیحت بنادیا گیا ہے۔