لاہور( نمائندہ جسارت) ملی یکجہتی کونسل کی سپریم کونسل کا اجلاس امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کی میزبانی اور صاحبزادہ ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر کی صدارت میں منصورہ میں ہوا ۔ اجلاس میں ملی یکجہتی کونسل کی22 جماعتوں کے قائدین اور3،3 نمائندوں نے شرکت کی ۔ اجلاس میں متفقہ طور پر صاحبزادہ ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر کو صدر اور لیاقت بلوچ کو ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل کے منصب پر کام کرنے کے لیے مزید ایک سال کی توسیع دی گئی ۔ نائب صدور اور ڈپٹی سیکرٹریز بھی ایک سال کے لیے حسب سابق کام کرتے رہیں گے ۔ اجلاس سے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق ، صاحبزادہ ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر ، لیاقت بلوچ ، پیر سید ہارون گیلانی ، تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ ، علامہ عارف واحدی ، تحریک حرمت رسولؐ کے امیر حمزہ ، چیئرمین علما و مشائخ کونسل پیر سید معین الدین محبوب کوریجہ ، حافظ زبیر احمد ظہیر ، امیر العظیم ، سید ضیا اللہ شاہ بخاری ، پروفیسر محمد ابراہیم ، صاحبزادہ سلطان احمد علی ، علامہ احمد اقبال رضوی ، تحریک جوانان پاکستان کے صدر عبداللہ گل ، مولاناعبدالرئوف ، اتحاد العلما پاکستان کے صدر مولانا عبدالمالک ، میاں مقصود احمد ، پیر غلام رسول اویسی ، سید ثاقب اکبر ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، جاوید قصوری ، سید لطیف الرحمن شاہ و دیگر قائدین خطاب کیا ۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے صاحبزادہ ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر اور لیاقت بلوچ کے ساتھ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ حکومت ختم نبوت ؐ، تحفظ ناموس رسالت ؐ ، شان صحابہ ؓ اور شان اہل بیت ؑکے تحفظ کی ذمے داری پوری کرنے کے بجائے ان مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی سہولت کا ر بنی ہوئی ہے ۔ اسلام آباد میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی شان میں گستاخی کے مجرم کو پکڑنے کے بجائے راتوں رات ملک سے فرار کرا دیا گیا ۔ انہوں نے کہاکہ ملی یکجہتی کونسل کی سپریم کونسل کے اجلاس نے ایف اے ٹی ایف کے دبائو پر کی گئی قانون سازی کو مسترد کرتے ہوئے اسے فوری واپس لینے کا مطالبہ کیاہے اور کہاہے کہ ملک و قوم کی آزادی اور خود مختاری کو ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی غلامی میں نہ دیا جائے ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ موجودہ حکومت کے 2 سالہ دور میں مہنگائی ، بے روزگاری اور بدامنی میں اضافہ ہواہے ۔ قیامت خیز اور تباہ کن مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے ۔ حکومت لوگوں کی گردن مروڑ کر ان سے خون پیسنے کی کمائی ٹیکسوں کے نام پر چھین رہی ہے ۔ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے غریب فاقہ کشی پر مجبور ہے ۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم ٹائیگر فورس کو قیمتیں چیک کرنے پر لگانے کے بجائے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے مہنگائی پر قابو پاسکتے ہیں اور انتظامیہ کے ذریعے یہ کام زیادہ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں ۔ ٹائیگر فورس قیمتیں چیک کرے گی تو قیمتیں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں گی ۔ وزیراعظم جب کسی چیز کے مہنگا ہونے کا نوٹس لیتے ہیں وہ مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے ، اب تو لوگ دعائیں کرنے لگے ہیں کہ وزیراعظم کوئی نوٹس نہ لیں ۔سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ ملی یکجہتی کونسل کو ا حساس ہے کہ حکمران فلسطین کے بجائے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور کشمیر و فلسطین کی آزادی کے قومی مطالبے سے دستبردار ہوچکے ہیں ۔ انہوںنے مطالبہ کیا کہ او آئی سی کا اجلاس بلا کر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے تجارتی معاہدے کرنے والے ممالک کو ان معاہدوں کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جائے ۔ ایک سوال کے جواب میں سراج الحق نے کہاکہ جلسہ جلوس اور احتجاج کرنا اپوزیشن کا آئینی اور جمہوری حق ہے مگر حکومت غیر آئینی و غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے یہ حق چھین رہی ہے ۔ ہر بڑی سڑک پر حکومت نے کنٹینرز لگارکھے ہیں ۔ اسلام آباد کنٹینرز کا شہر بن گیاہے ۔ اجلاس کے جاری کردہ متفقہ اعلامیے میں کہا گیاہے کہ اجلاس اتحاد اُمت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ملک وملت کا اہم ترین تقاضا قرار دیتاہے۔اجلاس کی نظر میں اس وقت ایک سوچی سمجھی سازش اورعالمی ایجنڈے کے تحت پاکستان کو فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ میں دھکیلا جارہاہے اور پاکستان جو واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے ،اسے شام ،عراق ،یمن اور لیبیا کی طرح فرقہ وارانہ کشیدگی کا مرکز بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔اجلاس کی نظر میں آئین کے لحاظ سے پاکستان اسلامی جمہوری ملک ہے۔ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے ۔ قرار داد مقاصد آئین پاکستان کا اہم ترین اور فعال ترین حصہ ہے ۔اسلامی نظریاتی کونسل تمام مکاتب فکر کانمائندہ آئینی ادارہ ہے۔ اس لیے پاکستان کے تمام مسائل بالخصوص فرقہ واریت سے پیدا شدہ صورت حال کا واحد علاج نظام مصطفی ؐکانفاذ ہے۔آئین پاکستان میں اگرچہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہ بنائے جانے کاوعدہ کیاگیا ہے تاہم آئین میں موجود بعض شقیں اس سے متصادم ہیں اور پاکستان کی عدلیہ اپنے بعض فیصلوں میں یہ قرار دے چکی ہے کہ آئین کی تمام دفعات برابر ہیں۔ اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیںکہ آئین میں موجود اسلامی دفعات کو دیگر دفعات سے بالاتر قرار دینے کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے۔ اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 2الف کو دیگر دفعات پر بالا دستی حاصل ہونی چاہیے ۔ملی یکجہتی کونسل کی سپریم کونسل کا یہ اجلاس موجودہ حالات میں پاکستان میں مہنگائی ، بے روز گاری ،تباہ حال معیشت اور امن عامہ کی بدترین صورتحال بالخصوص بچوں ، بچیوں پر جنسی درندگی اور ان کے قتل کے واقعات ، پولیس کی نااہلی اور عدالتی بے حسی اور انصاف کی عدم فراہمی اور سرعام پھانسی کی مخالفت کی آوازوں کی پُر زور مذمت کرتاہے۔ یہ اجلاس نامور عالم دین ،اسلامی اسکالر اور ممتاز دینی مفکر مولانا عاد ل خان کی شہادت کی مذمت کرتاہے اور قاتلوں کی فی الفور گرفتاری ،انہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور ان کو عبرت کانشان بنانے کامطالبہ کرتاہے۔اجلاس اہل بیت عظام بالخصوص خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالخصوص حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور خلفائے راشدین ؓ ،امہات المؤمنین ؓ کے بارے میں توہین پر مبنی غیر محتاط الفاظ کے استعمال کے واقعات کی مذمت کرتاہے اور ایسے مقررین و ذاکرین کی گرفتاری ،ان کے خلاف سخت ترین قانونی گرفت کا مطالبہ کرتاہے۔ اجلاس حکومت پاکستان کی نا اہلی کی پر زور مذمت کرتاہے اور ایسے عناصر کو قانونی گرفت سے بچانے اور بیرون ملک فرار کرنے والے حکومتی افراد کو بے نقاب کرنے اور انہیں نشان عبرت بنانے کامطالبہ کرتاہے۔اجلا س سودی معیشت کو قوم پر ہر صورت مسلط کرنے کی جسارت پر گہری تشویش کااظہار کرتاہے۔ اجلاس قرضوں کی معیشت کو ملک و قوم کے لیے مہلک سمجھتاہے اور مطالبہ کرتاہے کہ حکومت وفاقی شرعی عدالت میں سودی معیشت کے حق میں اسٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں کی پٹیشن واپس لینے کااعلان کرے اور وفاقی شرعی عدالت کے 1991ء اور شریعت اپیلٹ بینچ عدالت عظمیٰ کے 1999ء کے فیصلوں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 38-Fکے مطابق سودی قوانین کا مکمل خاتمہ کرے۔ ملی یکجہتی کونسل کا یہ اجلاس مولانا عبدالاکبر چترالی کے قومی اسمبلی میںبلا سود معیشت کے بارے میں پیش کردہ بل کی مکمل تائید کرتاہے۔ اجلاس یہ سمجھتاہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان بڑھتا ہوا تصادم اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ کے بجائے کشمکش کااضافہ ملک و قوم کے لیے انتہائی نقصا ن دہ ہے۔ اجلاس حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتاہے کہ اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہ کرنے کی قومی پالیسی کااعلان کرے اور اسے عرب ملکوں کے تسلیم کرنے سے مشروط نہ کرے ۔ اجلاس حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتاہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کا ساتھ دیتے ہوئے وہاں 6 لاکھ سے زائد ہندوئوں کو بسانے کے معاملات کو عالمی اداروں میں لے جائے ۔نیز گلگت بلتستان کے معاملات میں مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو نظر انداز نہ کیاجائے۔اجلاس یکساں نصاب تعلیم کے نام پر اور وقف بل کی آڑ میں مدارس و مساجد پر پابندیاں عاید کرنے کے عالمی ایجنڈے کی مذمت کرتا ہے ۔ حکومت وقف بل فوراً واپس لے ۔ اگر اس حکومت نے قادیانیوں کی سرپرستی سمیت اپنے غیر اسلامی اقدامات کا سلسلہ ختم نہ کیا تو اسے شدید ترین عوامی رد عمل کا سامنا کرناپڑے گا اوریہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح منہ کی کھائے گی۔