اسلام آباد (آن لائن) عدالت عظمیٰ نے زیر زمین پانی کے استعمال سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر وفاق اور چاروں صوبوں سے ملک بھر کے دریائوں اور نہروں کے کنارے درخت لگانے سے متعلق رپورٹ4 ہفتے میں طلب کر لی ہے اور وفاقی حکومت سے استفسار کیا کہ بلین ٹری سونامی منصوبے کا کیابنا؟۔ ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمدکی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کمراٹ، نتھیا گلی اور مری میں درخت ختم ہوگئے‘ ہمارے ملک میں آئندہ چند برسوں بعد سیاحت بالکل ختم ہوجائے گی‘ 5 سال بعد ہمارا ملک بحر مردار بن جائے گا‘ درخت نہ ہونے سے موسم گرم ہوجائے گا اور برف پڑنا بند ہوجائے گی‘پنجاب میں2 فٹ کے درخت لگائے گئے ہیں‘ درخت ہمارے سامنے کٹ رہے ہیں‘سندھ میں کچے کے علاقے میں جنگل ہونا چاہیے‘ کہاں لگے ہیں درخت ابھی مجسٹریٹ بھیج کر رپورٹ منگوا لیتے ہیں‘ سندھ میں کوئی درخت نہیں لگا‘ غلط بیانی نہ کریں۔ جسٹس فیصل عرب نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ بلین ٹری سونامی کا کیا بنا؟ جنگلات کی زمین نجی لوگوں کو الاٹ کر دی گئی‘چھوٹے درختوں کو تو بکریاں کھا جاتی ہیں‘ نئی گج ڈیم سے متعلق رپورٹ بھی نہیںجمع کرائی گئی‘ کاغذوں پر درخت نہ لگائیں رپورٹ پیش کریں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان میں40 ہزار درخت لگا چکے رپورٹ جمع کرانی باقی ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ پنجاب میں دریائوں اور نہروں کے کنارے 2 لاکھ درخت لگا دیے ہیں۔ سندھ محکمہ آبپاشی حکام نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں نہروں اور دریائوں کے ساتھ درخت لگائے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے چاروں صوبوں اور وفاق کے فارسٹ اور ایری گیشن سیکرٹریز کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے معاملے کی سماعت 4 ہفتے تک ملتوی کر دی ہے۔