لاہور (نمائندہ جسارت)چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمدقاسم خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کی جانب سے موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد علی ملہی کی گرفتاری پر پولیس افسران کے لیے 50لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کرنے کا نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ کیا اب پولیس افسران اپنی ذمے داریاں بھی انعام کے لالچ میں ادا کریں گے، یہ پنجاب حکومت نے نیا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے،عابد ملہی ان سے پکڑا نہیں جاتا، کیا پولیس کا کام ملزمان کو پکڑنا نہیں۔بدھ کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمدقاسم خان نے پولیس کی جانب سے سرکاری اراضی پر قبضہ کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب انعام غنی پیش ہوئے۔متروکہ وقف املاک بورڈ نے جواب جمع کراتے ہوئے بتایا کہ 2003 ء میں پولیس سے قبضہ چھوڑنے کا معاہدہ ہوا لیکن اس نے اب تک قبضہ نہیں دیا۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ پولیس والے اس ملک میں قبضہ گروپ کا کام کررہے ہیں۔عدالت نے آئی جی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے 24 گھنٹے میں 72 کنال زمین فوری واپس کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا کہ اسپیشل برانچ والے درخواست گزاروں کو تنگ کررہے ہیں، سڑکیں آپ سے سنبھالی نہیں جاتیں، ریپ ہورہے ہیں، اشتہاری گھوم رہے ہیں، اس ملک کا کیا بنے گا، امن و امان پولیس نے تباہ کردیا، آپ کے 30 فیصد افسر مافیا کے ساتھ مل کر پلاٹوں کا کام کررہے ہیں اور اب پولیس محکمہ نے بھی یہ کام شروع کردیا، اس ملک میں پولیس کی اندھیرنگری ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ریکارڈ تک نہیں دیکھا اور اپنے افسروں سے پوچھ گچھ تک نہیں کی اور یہاں پر آکر آپ نے بیان دینا شروع کردیا،، کیا آپ کا تقرر میرٹ پر ہوا، ہم اس کا بھی ریکارڈ منگوالیتے ہیں۔عدالت نے اس کیس کو آئی جی پنجاب تعیناتی کیس کے ساتھ منسلک کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست گزار وکیل سے کہا کہ شکر کریں پولیس نے آپ کو خفیہ جیل میں نہیں ڈالا۔عدالت نے کیس کی سماعت 3نومبر تک ملتوی کردی ۔