اسلام آباد(صباح نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی لوڈ شیڈنگ کیس میں ریمارکس د یتے ہوئے کہا کہ نجی کمپنیاں حکومتی غلطیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، کراچی میں بجلی کا مسئلہ کتنا حل ہوا؟، بجلی کی قیمت بھی بڑھا دی، کے الیکٹرک کے سرمایہ کاروں پر ہمارے شبہات ہیں،حکومت میں صلاحیت ہی نہیں، جس کی مرضی حکومتی اداروں کا استحصال کرے کوئی روکنے والا نہیں،سارا ملک پریشان ہے،کے الیکٹرک کو کنٹرول کون کرتا ہے کتنے شیئر ہولڈرز ہیں؟ اگر کھوج لگایا جائے تو کے الیکٹرک ممبئی سے کنٹرول ہورہا ہوگا۔ منگل کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے کراچی لوڈ شیڈنگ کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔چیف
جسٹس نے کہا کہ کراچی میں بجلی کا مسئلہ کتنا حل ہوا؟، آپ نے بجلی کی قیمت بھی بڑھا دی، تمام لوگ آپس میں ملے ہوئے ہیں، آپ کی آپس میں کوئی کوآرڈینیشن نہیں، نیپرا اور پاور ڈویژن والے، پی ٹی ڈی سی اور این ٹی ڈی سی کے محکمے کیا کر رہے ہیں، نجی کمپنیاں حکومت کی غلطیوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، نہ حکومتی اداروں میں صلاحیت ہے، نہ کچھ کرنا ہے نہ کچھ کرتے ہیں، لوگوں کو کیا سہولت فراہم کررہے ہیں، آپ کا نوکری پر رہنے کا کیا جواز ہے آپ کی نوکریاں فارغ کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو رپورٹس جمع کرائی گئیں ساری پڑھ لیں، گرائونڈ پر صورتحال تو ویسے کی ویسی ہے، نہ وفاقی حکومت کچھ کررہی ہے نہ ہی بجلی والے کچھ کر رہے ہیں، وفاق نے اپنی ذمے داری ادا نہیں کی ، آپ لوگوں میں اہلیت نہیں اس لیے آپ کو ہائی جیک کیا ہوا ہے، عوام بھی آپ کے سامنے ہائی جیک ہیں، آپ کے عہدے پر رہنے سے کسی پاکستانی کو رتی بھر کا فائدہ ہورہا ہے، تمام اداروں کو اربوں روپے ادا کیے جارہے ہیں، وہ عوام کی سہولت کے لیے کیا کر رہے ہیں۔جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کراچی میں بجلی کی کیپسٹی کیوں نہیں بڑھاتے؟، کے الیکٹرک والے کہتے ہیں 900 میگاواٹ کیپسٹی بڑھانے کی درخواست نیپرا کو دی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے ٹریبونل بنانا تھا ابھی تک نہیں بنا؟، 900 میگاواٹ کو سسٹم میں شامل کرنے کے لیے نیپرا نے کیا کیا؟۔ چیئرمین نیپرا نے کہا کہ کے الیکٹرک نے خود ہی اس کیخلاف حکم امتناع لیا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ایم کے الیکٹر ک سے استفسار کیا کہ کراچی کو کب بجلی دیں گے، کے الیکٹرک کا اصل مالک کون ہے۔وکیل کے الیکٹرک علی ظفر نے بتایا کہ کے الیکٹرک کے 9 ڈائریکٹرز ہیں، یہ سعودی اور کویتی بزنس گروپس کا اشتراک ہے، دونوں گروپس نے 400 ملین انویسٹ کیا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بالآخر ان گروپس کے پیچھے مزید گروپس ہوں گے، آخر میں یہ کمپنی ممبئی میں لینڈ کرے گی، سنا ہے شرما نامی کوئی بندا ہے۔ آدھا شہر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے رات کو جاگتا ہے، شہر میں ہیٹ ویو آرہا ہے اور لوگوں کو بجلی نہیں مل رہی، جب کمپنی ممبئی سے کنٹرول ہوگی پھر ایسا تو ہوگا۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کے الیکٹرک کے تمام لوگوں کی ایجنسیوں نے کلیرنس دی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کے الیکٹرک ڈیفالٹر ہے ،کیوں نہ ایم ڈی کے الیکٹرک کو جیل بھیج کر بھاری جرمانہ عاید کریں،سامنے کوئی اور پیچھے کوئی اور، سارے عمل میں آخر فائدہ کون لے رہا ہے ۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سابق سی ای او کے الیکٹرک تابش گوہر کو معاون خصوصی لگایا ہے، ایسے وقت میں جب کے الیکٹرک کا معاملہ عدالت میںزیر سماعت ہے۔ وفاقی حکومت نے عدالت کو بریفنگ دینے کی استدعا کی جو عدالت نے منظور کرتے ہوئے نیپرا اور کے الیکٹرک سے 4ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ آئندہ 2 ہفتوں میں وفاقی حکومت کی جانب سے اسد عمر اور عمر ایوب عدالت کو آئندہ کے پلان سے متعلق بریفنگ دیں گے۔ کیس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کر دی گئی۔