اپنا جائزہ ضرور لیں

305

شیخ انصر عزیز میئر اسلام آباد کے عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں‘ بلدیہ اسلام آباد کے قیام کے بعد تقریباً چار سال قبل یہ اسلام آباد کے پہلے میئر منتخب ہوئے تھے۔ ان چار سال میں یہ اسلام آباد میں کیا تبدیلی لائے؟ یہ سوال مسلسل ان کا تعاقب کرتا رہے گا، اس منصب کے لیے 15 فروری 2016 کو ان کا انتخاب کیا گیا اور 4 مارچ 2016 کو انہوں نے اپنے عہدے کا حلف لیا‘ بلدیہ کے قیام کے بعد پہلا فیصلہ یہ ہوا کہ سی ڈی اے کے 70فی صد ملازمین اسلام آباد میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں منتقل کیے گئے، پھر وسائل اور اختیارات تقسیم ہوئے، یہ عمل مزاحمت کے بغیر مکمل نہیں ہوا۔ میئر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے پہلا حکم ہی یہی دیا کہ شہر کی اسٹریٹ لائٹس درست کی جائیں‘ جھاڑیاں کاٹی جائیں اور سڑکوں گلیوں میں بکھرا ہوا کچراصاف کیا جائے‘ ٹوٹی سڑکیں کارپٹ کی جائیں‘ تجاوزات ختم کی جائیں چار سال کے بعد ہم اگر جائزہ لیں تو آج بھی شہر انہی مسائل کا شکار ہے۔ میئر کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی کا دورہ کیا تھا اور وہاں بھی تجاوزات کی شکایت ان کے سامنے رکھی گئی‘ آج بھی وہاں دیکھ لیں صورت حال ویسی ہی ویسی ہے۔
سی ڈی اے / ایم سی آئی کی جانب سے ڈی جی ماحولیات مسائل کے حل کے لیے فوکل پرسن بنائے گئے تھے‘ مگر مسائل کا پرنالہ وہیں کا وہیں رہا‘ بلکہ مسائل بڑھ گئے ہیں‘ پینے کے پانی کے پائپ توڑ کر غیر قانونی سروس اسٹیشن کی شہر بھر میں بھرمار ہے۔ دوسری جانب شہری پینے کے پانی کی عدم دستیابی پر پریشان رہتے ہیں۔ کئی سیکٹرز میں درجنوں بار مظاہرے بھی ہوئے، احتجاج بھی ہوا، مگر یہ غیر قانونی سروس اسٹیشن ختم نہیں کیے جاسکے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مارکیٹوں اور شہر کے سب سے بڑے کاروباری مرکز بلیو ایریا میں تجاوزات اور ڈھابوں چھوٹے ہوٹل مالکان نے شہر کا حسن گہنا کر رکھ دیا ہے‘ صفائی کے لحاظ سے تو اب ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس کے آس پاس کا علاقہ اور حتی کہ ریڈ زون‘ شاہراہ دستور بھی اب مثالی علاقہ نہیں رہا‘ درجنوں بار یہاں گدھوں کی تصویر اخبارات میں شائع ہوچکی ہے‘ متعدد بار دیکھا گیا کہ پارلیمنٹ ہائوس کی چار دیواری میں آوارہ کتے کسی روک ٹوک کے بغیر موجود ہیں مگر اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ شہر میں کوئی آوارہ کتا نظر نہیں آتا تھا‘ مگر اب ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ شہر میں حالت یہ ہے کہ فٹ پاتھ پر پیدل چلنا اب ممکن نہیں رہا‘ جگہ جگہ تجاوزات ہیں۔ میئر انصر عزیز نے سائیکل ٹریک بنایا تھا‘ اور خود سائکل چلا کر اس کا افتتاح کیا‘ مگر حد یہ کہ ٹریک شاہراہ دستور کے ساتھ فٹ پاتھ پر بنایا گیا‘ کسی این جی او نے اس پر رد عمل نہیں دیا اور خود ایم سی آئی بھی خاموش رہی‘ اب شیخ انصر عزیز میئر کے عہدے مستعفی ہوچکے ہیں، ان سے متعلق اب کیا بات کی جائے تاہم انہیں خود احتسابی ضرور کرنی چاہیے کہ اللہ نے انہیں اسلام آباد کو بہتر بنانے کا موقع دیا تھا مگر انہوں نے اسے ضائع کردیا۔ اپنے پورے دور میں جب تک انہیں مسلم لیگ(ن) کی وفاقی حکومت کی سرپرستی بھی میسر تھی‘ اس کے باوجود وہ شہر کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے‘ جگہ جگہ مسائل ہیں۔ تجاوزات کا جن ہے جو بوتل میں بند ہی نہیں ہورہا‘ کراچی کمپنی کے علاوہ شہر کی مارکیٹوں سمیت بلیو ایریا میں گندگی اور تجاوزات کی ایک بہت بڑی وجہ چھوٹے ہوٹل بھی ہیں جن کی وجہ سے پورے بلیو ایریا میں چوہوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ جناح ایونیو اور فضل حق روڈ بلیو ایریا کے پلازوں کے درمیان خالی جگہ اس وقت مکمل طور پر فلتھ ڈپو بنی ہوئی ہے سی ڈی اے اور بلدیہ اسلام آباد میں اختیارات کی تقسیم کے عمل نے بھی شہر میں مسائل بڑھا دیے ہیں‘ جس کی وجہ چھوٹے ہوٹلوں میں ملنے والا غیر معیاری کھانا بھی چیک نہیں کیا جاتا‘ سی ڈی اے کا فوڈ ڈیپارٹمنٹ یہاں ماضی جیسی چیک اینڈ بیلنس نہیں کر رہا، اب سی ڈی اے اور بلدیہ دونوں مسائل کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال کر شہریوں اور مارکیٹوں میں آنے والے صارفین کو ناخوش گوار سماجی ماحول میں خریداری کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ رہائشی سیکٹرز میں گندگی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ شہر بھر میں آوارہ کتوں کی بہتات ہے اور شہر میں اب لوگوںنے گھروں میں کبوتر‘ مرغیاں‘ بطخیں اور حتی کہ بکریاں تک پال رکھی ہیں جس سے صفائی کا نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے صفائی کے لحاظ سے آئی‘ نائن‘ آئی ٹین کے علاوہ جی سیکٹرز کے بہت ہی برے حالات ہیں مگر ایف سیکٹرز میں بھی اب گندگی بڑھتی چلی جارہی ہے غیر قانونی سروس اسٹیشن جگہ جگہ بنے ہوئے ہیں اور مارکیٹوں میں گاڑیاں دھوئی جارہی ہیں پانی بہنے سے شہر اور مارکیٹوں کی سڑکیں تباہ ہورہی ہیں مگر سی ڈی اے اور بلدیہ اسلام آباد دونوں اس حوالے سے اپنی اپنی ذمے داریاں نبھانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔