گلگت بلتستان: سمٹتی ہوئی داستان دراز (پہلا حصہ)

486

اس وقت جب کہ حکومت سراسیمگی، فکری کج روی اور انتشار کا شکار ہے، معمول کے حالات بھی اس سے سنبھالے نہیں جا رہے، وہ مسائل کے سامنے احمقوں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑی ہے، اس پر قہر ایسے وزیر مشیر جو صائب مشورہ دینے کی صلاحیت سے عاری صرف لاف زنی پر یقین رکھتے ہوںگلگت بلتستان کو صوبہ بنانے جیسا فیصلہ! یہ فیصلہ اس حکومت کی ذاتی سوچ بچار کا نتیجہ ہے کوئی احمق ہی اس بات پر یقین کرسکتا ہے۔ گزشتہ ماہ کے وسط میں وفاقی وزیر برائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور (شراب کو شہد قرار دینے والے) نے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان بہت جلد اس علاقے کا دورہ کریں گے اورگلگت بلتستان کو مکمل صوبہ بنانے اور تمام آئینی حقوق دینے کا باقاعدہ اعلان کریں گے۔ 22ستمبر کو وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید نے انکشاف کیا کہ 16ستمبر 2020 کو آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف نے اپوزیشن جماعتوں کے پندرہ رہنمائوں سے ملاقات کی تھی جس میں گلگت بلتستان کی آئینی پوزیشن میں ہونے والی تبدیلی کے حوالے سے گفتگو ہوئی تھی۔ ان بیانات کے بعد گلگت بلتستان کے حوالے سے بحث شروع ہوگئی۔
گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے حوالے سے دو آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ اہل گلگت بلتستان کا خیال ہے کہ ’’اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا‘‘ گلگت بلتستان کو فوری طور پر ضم کرکے پاکستان کا صوبہ بنایا جائے۔ کچھ لوگ اس خیال کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وفاداری بشرط استواری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے مسئلہ کشمیر پر منفی اثرات پڑیں۔ ان دو موقف کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کی قیام پاکستان کے وقت حیثیت، موجودہ حیثیت اور مسئلہ کشمیر سے اس کے تعلق کے بارے میں جان لیا جائے۔
٭ گلگت بلتستان 73ہزار اسکوئر کلو میٹرپر پھیلا ہوا ہے اور اس کی آبادی تقریباً20لاکھ ہے۔ اس کی سرحدیں آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر، پاکستان، چین اور افغانستان سے ملی ہوئی ہیں۔
٭ 14ویں صدی عیسوی سے اس علاقے میں اسلام داخل ہوا۔ اس کے بعد اس علاقے پر مقامی حکمرانوں کی حکومت رہی جن میں اسکردو کے میکپون خاندان اور ہنزہ کے راجا زیادہ مشہور ہیں۔ مغلوں کے دور میں میکپون خاندان کے علی شیر خان کے دور میں گلگت بلتستان کو یکجا کیا گیا اور ساتھ ہی چترال اور لداخ بھی اس میں شامل کردیے گئے۔ علی شیر خان کے مغل حکمرانوں سے اچھے تعلقات تھے۔
٭ آخری میکپون راجا احمد شاہ تھا جس نے 1811ء سے 1840ء تک حکمرانی کی۔ احمد شاہ کو ڈوگرہ افواج نے ایک ناکام بغاوت میں 1840ء میں قتل کرڈالا۔ ڈوگرا کمانڈر گلاب سنگھ کی قیادت میں اسکردو پر قبضہ کرلیا گیا۔ 1845-46 میں سکھوں کو انگریزوں کے ہا تھوں شکست ہوئی جس کے بعد یہ علاقہ ریاست جموں وکشمیر کے تحت یعنی ڈوگرہ راج میں آگیا۔
٭ قیام پاکستان کے وقت ریاست جموں وکشمیر میں گلگت بلتستان بھی شامل تھا، کچھ عرصے کے لیے ایک آزاد ریاست رہی۔
٭ 22اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلیوں اور کشمیر مجاہدین نے مظفر آباد سے سری نگر کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ 26اکتوبر 1947 کو جموں وکشمیر کے راجا ہری سنگھ نے ’’انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘‘ پر دستخط کرکے بھارتی یو نین میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔
٭ گلگت بلتستان کے عوام نے بھارت میں شامل ہونے کے فیصلے کو قبول نہیں کیا۔ علاقے کے لوگ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ عوام کے رحجان کو دیکھتے ہوئے یکم نومبر 1947ء کوگلگت اسکائوٹ کے میجر ویلیم برائون نے ہری سنگھ کے خلاف بغاوت کردی۔ گلگت کے لوگوں نے ایک عارضی حکومت قائم کردی جس میں راجا رئیس خان کو صدر اور مرزا حسن خان کو کمانڈر انچیف بنادیا گیا۔ 16نومبر 1947ء کو پاکستان کے پولیٹیکل ایجنٹ خان محمد عالم خان گلگت پہنچے اور یہاں کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
٭ یکم جنوری 1948ء کو بھارت جموں وکشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اپریل 1948ء میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں پاکستان سے کہا گیاکہ وہ جموں وکشمیر کے علاقے سے اپنی افواج مکمل طور پر نکال لے جب کہ بھارت سے کہا گیا کہ وہ اپنی افواج کی تعداد کو کم سے کم سطح پر لائے۔ جس کے بعد استصواب رائے کے ذریعے لوگوں کی خواہش معلوم کی جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔
٭ اقوام متحدہ کی ان قراردادوں پر آج تک عمل نہیں ہوسکا۔ جس کے بعد آج تک گلگت بلتستان اور جموں وکشمیر کا مغربی حصہ جسے اب آزاد جموں وکشمیر کہا جاتا ہے پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔
٭ اگرچہ گلگت بلتستان کے عوام مہا راجا ہری سنگھ سے نجات کے بعد فوری طور پر پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن پاکستان نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اس علاقے کا تعلق جموں وکشمیر سے ہے۔ کچھ عرصے گلگت بلتستان بظاہر آزاد کشمیر کے زیر انتظام رہا۔
٭ 28اپریل 1949 کو آزاد جموں وکشمیر حکومت نے ’’کراچی معاہدے‘‘ کے تحت گلگت بلتستان کو عارضی طور پر وفاقی حکومت کے حوالے کردیا لیکن پھریہ منتقلی مستقل ہوگئی۔ اس معاہدے کے تحت جہاں آزاد کشمیر حکومت نے گلگت بلتستان کو حکومت پاکستان کے حوالے کردیا وہیں اپنے علاقے میں بھی دفاع، خارجہ امور اور کرنسی کو وفاقی حکومت کے سپرد کردیا۔ اس وقت اس علاقے کو شمالی علاقہ جات کہا جاتا تھا۔
٭ 1972ء میں آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے گلگت بلتستان کو واپس لینے کے حق میں قرارداد منظور کی۔ 1974 کے آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا۔ 1992 میں آزاد کشمیر کی ہائی کورٹ نے ایک پٹیشن پر فیصلہ دیتے ہوئے آزاد کشمیر کی حکومت کو حکم دیا کہ وہ گلگت بلتستان کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے۔
٭ اس حکم کو آزاد کشمیر کی عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا جس نے اس حکم کو معطل کردیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی قراردیا کہ گلگت بلتستان جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔
کراچی معا ہدے کے بعد 1990 تک گلگت بلتستان پر برطانوی راج کے قانون ’’فرنٹیر کرائم ریگو لیشن‘‘ کے تحت حکومت کی گئی۔ ان قوانین کی بنیاد یہ تھی کہ قبائلی لوگ وحشی اور غیر تہذیب یافتہ ہیں لہٰذا ان پر اجتماعی طور پر سزائیں اور جرمانے عائد کیے جاتے تھے۔ لوگوں کی کوئی قانونی نمائندگی موجود تھی اور نہ ہی انہیں اپیل کا حق حاصل تھا۔ وہاں کوئی حکومت نہیں تھی۔ قبائلی لوگوں کو سفر کرنے کے لیے پہلے پولیس سے اجازت لینی پڑتی تھی۔ 1969ء میں شمالی علاقہ جات مشاورتی کونسل (NAAC) بنائی گئی جس کا نام 1974میں شمالی علاقہ جات کونسل (NAC) اور پھر 1994ء میں شمالی علاقہ جات قانون ساز کونسل (NALC) کردیا گیا لیکن اس کے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں تھا۔ تمام سیاسی اور عدالتی اختیارات ’’وزارت برائے امور کشمیر و شمالی علاقہ جات (KANA)‘‘ کے پاس تھے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو وہ حقوق حاصل نہیں تھے جو پاکستان اور آزاد کشمیر کے شہریوں کو حاصل تھے۔ 1994ء میں وزارت برائے امور کشمیر وشمالی علاقہ جات (KANA) نے ایک لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) تیار کیا جس اس علاقے کے لیے ایک ڈیفیکٹو آئین کے طور پر استعمال کیا گیا۔
(جاری ہے)