بلدیاتی انتخابات اور جمہوری حکومتیں

742

پاکستان میں جب جب بھی جمہوری حکومتیں رہی ہیں بلدیاتی انتخابات کم کم ہی ہوئے ہیں الا یہ کہ کسی صوبے میں کبھی عدالت نے حکم دیا ہو کہ فلاں تاریخ تک بلدیاتی انتخابات کرادیے جائیں، تو پھر مجبوراً حکومت کو انتخابات کرانا پڑا ہو۔ اس کے مقابلے میں ملک میں جب بھی مارشل لا لگا ہو یا فوجی حکومتیں رہی ہوں تو ان فوجی حکمرانوں نے پابندی سے بلدیاتی انتخابات کروائے ہیں۔ 1947 سے 1957 تک ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے اس کی وجہ یہ تھی خود اقتدار کے ایوانوں میں سیاسی استحکام نہیں تھا اور محلاتی سازشوں کے ذریعے آئے دن حکومتیں الٹ پلٹ ہوتی رہتی تھیں۔ لیکن اسی دور میں یہ بات بھی تھی ہمارے سرکاری اداروں کے ملازمین میں خدا خوفی تھی جس کی وجہ سے بغیر کسی بلدیاتی نمائندوں کے ان اداروں کا کام بحسن خوبی چلتا رہتا تھا ملازمین کو اپنی اپنی ذمے داریوں کا احساس تھا بلدیاتی اداروں سمیت ساری سرکاری مشینری صحیح رخ پر کام کررہی تھیں۔ دیگر سرکاری اداروں میں بھی عوام کے مسائل بغیر کسی رشوت یا لین دین کے حل ہو جاتے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد سے ملک میں دستور سازی کا مرحلہ بہت مشکل تھا۔ اللہ اللہ کرکے دستور ساز اسمبلی نے 1956 کا دستور منظور کیا جس کو ملک کے تمام مکتبہ فکر کے چوٹی کے علماء اورسیاسی رہنمائوں کی حمایت حاصل تھی مولانا مودودی کی اس دستور سازی میں جدوجہد سب سے نمایاں تھی یہ ایک مکمل اسلامی دستور تھا، یہی وجہ ہے کہ جب 1970 میں جنرل یحییٰ خان نے دستور ساز اسمبلی کا انتخاب کرانے کا اعلان کیا کہ یہ اسمبلی 120دن میں دستور بنائے گی، اس کے بعد یہ از خود تحلیل ہو جائے گی اور اس کے بعد اس دستور کے تحت عام انتخابات دوبارہ ہوں گے اس وقت مولانا مودودی نے یہ بیان دیا تھا کہ 1956 کا دستور جو ایک متفقہ دستور ہے اس کو نافذ کردیا جائے اور اس دستور کے تحت عام انتخابات کرا دیے جائیں لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی، اگر یہ بات مان لی جاتی تو ہم شاید سقوط ڈھاکا کے عظیم سانحے سے بچ جاتے۔
اس دستور کے تحت عام انتخابات ہونا تھے لیکن پتا نہیں کیوں یہ عجیب فیصلہ ہوا کہ پہلے بلدیاتی انتخابات کرادیے جائیں، اس کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوں جو پارٹی کامیاب ہو اسے اقتدار منتقل کردیا جائے۔ کچھ باتیں اور نکات ایسے ہیں جو جماعت کے سینئر اور بزرگ کارکنان کے ساتھ نشست برخاست میں ہمارے علم میں آئے مجلسوں کا بھی اپنا ایک علم ہوتا ہے، اسی میں یہ معلوم ہوا کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے یہ تو معلوم نہیں کہ کراچی کی کل نشستیں کونسلروں کی کتنی تھیں لیکن یہ بات معلوم ہوئی کہ جماعت نے کراچی سے 19امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں سے 17کامیاب ہوئے تھے، لیاقت آباد سے پروفیسرعبدالغفور احمد اور مرحوم عبدالستار شارق کامیاب ہوئے تھے اس وقت جماعت اسلامی کا سیاسی مقابلہ صرف مسلم لیگ سے تھا عوام میں جماعت اسلامی کی محبت والی پزیرائی تھی اس کی مثال یہ کہ اس زمانے میں ہر امیدوار کے بیلٹ بکس اس کے نام سے الگ ہوتے تھے جماعت کے امیدواروں کے ڈبے سے ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی نکلے تھے یہ عوام کی محبت تھی لیکن جماعت کی یہ کامیابی مخالفین کو ہضم نہ ہو سکی، ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا اور سب کچھ ختم ہو گیا۔
ایوب خان کا مارشل لا اتنا سخت تھا کہ اب بھی لوگ اس کی یادیں شیئر کرتے ہیں کہ کس طرح ہوٹلوں میں، چائے خانوں میں جالیاں لگ گئیں، پانی ملا دودھ سڑکوں پر بہا دیا گیا، گھی میں ملاوٹ ثابت ہوئی تو اس کے کنستر کنستر اٹھا کر پھینک دیے گئے بلدیاتی ادروں سے زیادہ سختی اس مارشل لا کے دور میں دیکھی گئی لیکن کچھ عرصے بعد یہ سختی ڈھیلی پڑتی گئی۔ پھر ایوب خان نے اپنا 1962 کا دستور دیا جس کی تمام سیاسی جماعتوں نے سخت مخالفت کی، مشہور شاعر حبیب جالب نے معرکہ آرا نظم لکھی جو زبان زدعام ہوئی کہ اس دستور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا بہر حال اسی دستور کے تحت 1964میں بی ڈی کے انتخابات کرائے گئے جس کو Basic Democracy کا نام دیا گیا۔ ان بی ڈی ممبران کی دو حیثیتیں تھیں، ایک تو وہ صدارتی انتخابات کے ووٹر تھے اور دوسری طرف اپنے محلے یعنی اپنے حلقہ انتخاب میں بلدیاتی امور کے ذمے دار بھی تھے۔ ایوب خان نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کر کے یہ صدارتی انتخاب تو جیت لیا اور فاطمہ جناح کو ہرا دیا لیکن وہ عوام کا دل نہ جیت سکے۔ 1965کی جنگ نے انہیں قوم کا ہیرو بنا دیا لیکن اعلان تاشقند نے انہیں ہیرو سے زیرو بنادیا ان کے خلاف تحریک چلی پھر ان کو مستعفی ہونا پڑا، ان کے بعد جنرل یحییٰ برسراقتدار آئے جو ڈھائی سال تک حکمران رہے ان کے فوجی دور میں بلدیاتی اداروں کے انتخاب نہ ہو سکے۔
ملک ٹوٹنے کے بعد بچے کھچے پاکستان میں بھٹو صاحب برسراقتدار آئے جو 1972 سے 1977 تک حکمران رہے لیکن انہوں نے اپنے دور میں بلدیاتی انتخاب نہیں کروائے اور بلدیاتی اداروں کو خود براہِ راست کنٹرول کرتے رہے۔ 1977 میں جنرل ضیاء نے مارشل لا نافذ کیا اور 90دن میں نئے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا، پھر ان کی نیت بدل گئی اور اپنی طویل حکمرانی کی منصوبہ بندی میں مصروف ہو گئے۔ 1979 میں انہوں نے ملک میں پہلے بلدیاتی انتخابات کروائے جس میں کراچی سے جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی مرحوم کامیاب ہوئے 1983 میں دوسرے بلدیاتی انتخابات ہوئے جس میں کراچی سے دوبارہ افغانی صاحب کامیاب ہوئے، ان آٹھ برسوں میں جماعت اسلامی کے میئر نے کراچی کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ ضیاء صاحب کو کراچی میں جماعت اسلامی کی دو مرتبہ کی کامیابی کھٹکنے لگی اور انہوں نے ایک خاص منصوبے کے تحت اپنی لے پالک تنظیم ایم کیو ایم کو کراچی میں کھلی چھوٹ دی اور تیسرے بلدیاتی انتخاب میں ایم کیو ایم کے فاروق ستار کامیاب ہو کر میئر بنے۔
1988 میں جنرل ضیاء صاحب جب طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوئے ان کے بعد پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنی۔ 1988 سے 1999 تک دو سیاسی جماعتیں باری باری برسراقتدار آتی رہیں لیکن ان دونوں سیاسی جماعتوں کے جمہوری ادوار میں کوئی بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے، تاآنکہ 1999 میں پرویز مشرف برسر اقتدار آئے جنرل مشرف نے اپنے فوجی دور میں دو مرتبہ بلدیاتی انتخابات کروائے۔ کراچی سے بلدیاتی انتخاب میں نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ میئر کراچی بنے ان کے دور میں کراچی میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے جس کی آج مخالفین بھی تعریف کرتے ہیں۔ ان کے بعد ایم کیو ایم کے مصطفی کمال میئر کراچی بنے جب 2007 میں جنرل مشرف کی حکومت ختم ہوئی تو 2007 سے 2018 تک ان 11برسوں میں پھر یہ دونوں سیاسی جماعتیں یعنی پی پی پی اور ن لیگ باری باری حکومت میں آتی رہیں لیکن ان دونوں جماعتوں نے اپنے دور میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے البتہ عدالت کے حکم سے سندھ میں بلدیاتی انتخاب ہوئے ایم کیو ایم کے وسیم میئر بنے جون 2020 میں ان کی مدت ختم ہو گئی اب دیکھیے پی ٹی آئی کی حکومت کب یہ انتخاب کرواتی ہے سندھ میں تو پی پی پی نے مردم شماری کی آڑ لے کر بلدیاتی انتخاب کے انعقاد کو مشکوک بنادیا۔