اسلام آباد(نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ بلدیاتی اختیارات صوبائی یا وفاقی حکومت کو دینا آئین کے آرٹیکل 140 کے خلاف ہے۔بدھ کو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات سے متعلق مقدمات پر سماعت کی۔سابق میئر کراچی وسیم اختر، بیرسٹر سیف، فردوس شمیم نقوی، لیگی رہنما دانیال عزیز، پی پی پی رہنما فرحت اللہ بابر، وفاقی وزیر اسد عمر، ن لیگی رہنما احسن اقبال کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مقامی حکومتوں کا ہونا کسی کی پسندنہیں بلکہ لازمی ہے، کراچی کا موجودہ نظام عوام کو فائدہ نہیں دے رہا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اختیارات منتقلی سے ہچکچا رہی ہیں، سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں تو اختیارات دینے کو دل نہیں کرتا، حکومت میں نہ ہوں تو یہ اختیارات منتقلی کی بات کرتے ہیں، کے پی کے اور بلوچستان کے بلدیاتی اختیارات صرف کاپی پیسٹ ہیں، ہر اقتدار میں آنے والی جماعت خود کو فائدہ دینے کے لیے قانون سازی کرتی ہے، سندھ کا بلدیاتی قانون نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔چیف جسٹس نے کہا کہ 5سال ایم کیو ایم نے کیا کیا، میئر کراچی نے تو شہر کا حلیہ بگاڑ دیا، گھروں میں پانی تھا لوگ مر رہے تھے، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کا عملہ بارشوں میں کہیں نظر نہیں آیا، کے ایم سی ملازمین کو 5ارب تنخواہ دی جاتی ہے، 5ارب لینے والے کام کرتے نظر کیوں نہیں آتے، آئیڈیل قانون سازی بھی کرلیں تو کیا سارے مسائل ختم ہوجائیں گے، سارا عملہ کاغذوں میں ہے تنخواہیں کوئی اور کھا رہا ہے۔وکیل ایم کیو ایم بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ایم کیو ایم کی کارکردگی کا دفاع نہیں کروں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سارا کھیل طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا ہے، کیا ضمانت ہے مقامی حکومتیں اختیارات ملنے پر کام کرائیں گی، ممکن ہے بلدیاتی حکومتیں زیادہ کام خراب کر دیں، کراچی کو جو بھی نظام دیا گیا، اس کے کوئی اچھے نتائج نہیں نکلے۔عدالت نے تمام وکلا سے تحریری دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت اکتوبر کے دوسرے ہفتہ تک ملتوی کردی۔ عدالت نے تحریک انصاف کی درخواست پر رجسٹرار کے اعتراضات کالعدم قرار دیتے ہوئے سندھ حکومت، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو بھی نوٹس جاری کردیے۔