لاہور (نمائندہ جسارت)) چیف جسٹس آف پاکستان چیف جسٹس گلزار احمد نے موٹروے پر خاتون سے زیادتی کے واقعے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے اسے شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کی کمان غیر پیشہ ورانہ افراد کے ہاتھ میں ہے ۔پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں 6 روزہ کمرشل اور اوورسیز کورٹس ٹریننگ ورکشاپ کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ وقت کا تقاضا ے کہ ججز اور عدالتوں کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہمارا یہاں اکٹھا ہونا ہمارے سرمایہ کار اور کاروباری طبقے کے لیے بہترین اقدامات کو یقینی بنانا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا بڑا انحصار سرمایہ کاری پر ہے۔ کاروباری معاملات میں مختلف مراحل پر مسائل پیدا ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کاروباری معاملات عدالتوں میں آتے ہیں تاکہ انہیں حل کیا جا سکے۔ تاہم ان کا عدالتوں میں لٹک جانا مزید مسائل کو جنم دیتا ہے۔ جن ممالک میں بہترین عدالتی نظام موجود ہوتا ہے، وہاں سرمایہ کاری بھی زیادہ آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم سرمایہ کاری میں اضافہ کے خواہشمند ہیں تو بہترین عدالتی نظام وقت کا اہم تقاضا ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے لاہور موٹروے پر گزشتہ روز خاتون کیساتھ زیادتی کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ شرمناک ہے۔ انہوں نے اس پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو جاگنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ پولیس میں سیاسی مداخلت عام ہو چکی ہے۔ پولیس کی کمان غیر پیشہ ورانہ افراد کے ہاتھ میں ہے۔ امن وامان حکومت کی بنیادی ذمے داری ، اس ضمن میں پولیس کا شفاف نظام وقت کہ اہم ضرورت ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس میں سیاسی مداخلت عام ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں عوام کی جان ومال محفوظ نہیں، معصوم مسافروں کو ہائی وے پر سنگین جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ واقعہ بھی اسی کا نتیجہ ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ یہ بات شرمناک ہے کہ ہائی وے پر شہریوں کی حفاظت کا موثر نظام ہی موجود نہیں ہے۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور محکمہ پولیس کی ساکھ کو بحال کرے۔ حکومت پولیس میں کسی بھی سیاسی شخص کی مداخلت کا راستہ روکے۔ان کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس میں ہونے والے تبادلے اس بات کی علامت ہیں کہ پولیس کے محکمے میں کس قدر سیاسی مداخلت ہے۔ پولیس فورس نظم وضبط کے بغیر کام نہیں کر سکتی۔ اس وقت تک عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا، جب تک پولیس فورس میں پیشہ ورانہ مہارت نہ ہو۔