ـ7 ستمبر‘ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ

5018

ملک بھر میں یوم دفاع ختم نبوت آج منایا جائے گا، ختم نبوت کے حوالے سے ملک بھر میں تقریبات ہوں گی ، 7ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی نے تاریخ ساز آئینی ترمیم پاس کرکے قادیانیوں کو کافر قرار دیا تھا۔ قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی آئینی ترمیم شام 5 بجکر 52 منٹ پر پاس کی گئی، پوری قومی اسمبلی اور چودھری ظہور الٰہی‘ پروفیسر غفور احمد‘ مولانا مفتی محمود‘ شاہ احمد نورانی نے اس لمحے کے لیے ملت اسلامیہ کی بہت خدمت کی۔ ربوہ ریلوے اسٹیشن پر اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں کا بہنے والا خون رنگ لایا، 1974ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قومی اسمبلی میں تمام جماعتوں نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم کی حمایت کی۔ قومی اسمبلی کے ریکارڈ کے مطابق یہ ساری کارروائی ایک کمیٹی کی صورت میں ہوئی جس میں یحییٰ بختیار نے اٹارنی جنرل کے طور پر بھر پور تیاری کے ساتھ کمیٹی کے ہر اجلاس میں شرکت کی اور قادیانیوں کی جانب سے پیش ہونے والے ہر شخص پر بہت خوب جرح کی‘ سینئر اخبار نویس سید سعود ساحر جو اس وقت قومی اسمبلی کی کارروائی کے عینی شاہد رہے ہیں‘ ان تمام لمحات کو ایک کتاب کی شکل میں قلم بند کیا۔ اس کتاب کا پیش لفظ مولانا فضل الرحمن نے لکھا ہے۔ جب قومی اسمبلی میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا اس وقت اسمبلی کی کمیٹی میں قادیانیوں کو اپنے دفاع کا بھرپور موقع دیا گیا تھا مگر وہ اپنے آپ کو مسلمان ثابت نہ کرسکے۔ جس پر ایک طویل بحث کے بعد قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم پیش کی گئی۔
قادیانی تاریخ کے مطابق 1857ء کی جنگ ِ آزادی میں مسلمانوں کے ’’جذبہ جہاد‘‘ کے تجزیے کے لیے برطانوی تھنک ٹینکس بیٹھے اور ’’ہندوستان میں برطانوی سلطنت کا وُرود‘‘ (The arrival of British Empire in India) کے عنوان سے ایک رپورٹ تیار کی گئی جو انڈیا آفس لائبریری (لندن) میں آج بھی موجود ہے‘ رپورٹ کے مطابق’’ملک (ہندوستان) کی آبادی کی اکثر یت اپنے پیروں یعنی روحانی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگر اس مرحلے پر ہم ایک ایسا آدمی تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو اس بات کے لیے تیار ہو کہ اپنے لیے ’’ظلی نبی‘‘ (Apostolic Prophet) ہونے کا اعلان کردے تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کے گرد جمع ہو جائے گی لیکن اس مقصد کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ ہم نے پہلے بھی غداروں ہی کی مدد سے ہندستانی حکومتوں کو محکوم بنایا۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے ملک میں داخلی بے چینی پیدا ہو سکے‘‘۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو کھڑا کرکے ہندوستان میں مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے سامراجی استعمار کو جو کچھ مطلوب تھا وہی کام لیا گیا لیکن ہندوستان کے تمام دینی طبقات نے مرزا غلام احمد قادیانی کی تعلیمات اور تصنیفات کا بغور جائزہ لے کر اس کے حقیقی کفر کی حقیقت سے دنیا کو آگاہ کر دیا تاریخی حوالہ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر پر سب سے پہلا فتویٰ کفر علمائے لدھیانہ نے دیا تمام مکاتب فکر کی رائے اور فتویٰ ایک تھا، ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم اور مولانا ظفر علی خاں مرحوم نے اپنی بہترین صلاحیتوں سے منکرین ِ ختم ِ نبوت کے عقائد کو بے نقاب کیا 21 تا 23 اکتوبر 1934ء کو قادیان میں پہلی احرار تبلیغ کانفرنس کا انعقاد اور اس میں ہندوستان کی چوٹی کی مذہبی قیادت کی شرکت مجلس احرار ِ اسلام کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم ِنبوت کا وہ جرأت مندانہ تاریخی اقدام تھا جس نے پوری دنیا کے سامنے قادیانیت کو بے نقاب کیا اور خود برطانوی راج پر یہ واضح ہوگیا کہ یہ کام اِتنا آسان نہیں ہے کہ اقتدار اور دولت کے زور پر جھوٹی نبوت کو اسلام کے نام پر متعارف کرایا جاسکے۔
قیام پاکستان کے وقت قادیانیوں نے بائونڈری کمیشن میں ضلع گورداسپور کو شامل نہ کرنے کی سازش کی تاکہ پاکستان کے لیے کشمیر جانے کا راستہ باقی نہ رہے پھر ایک دوسرا موقع آیا جب 1949ء میں پاکستانی فوج نے پونچھ پر قبضہ کرکے سری نگر کی طرف پیش قدمی کرنے کی پوری تیاری کرلی تھی بھارتی وزیر
اعظم نے برطانوی وزیر اعظم سے مدد طلب کی تو قادیانی وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خاں نے برطانیہ کی مدد کرتے ہوئے حکومت کو حملہ روکنے پر راضی کر لیا پاکستان بننے کے بعد اس فتنہ نے یہاں اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کی بلکہ یہ مشہور کردیا کہ مرزا محمود کو خواب میں بھی بشارتیں ملی ہیںکہ صوبہ بلوچستان عن قریب مرزائی اسٹیٹ ہوگا لہٰذا اسی لیے انہوں نے آزاد بلوچستان کی تحریک کی مدد کی جس کو برطانیہ کی پشت پناہی حاصل تھی اس وقت کی جانے والی سازش کو آج کے بلوچستان خصوصاً پاک چائنا اقتصادی راہداری کے تناظر میں بھی دیکھا جائے تو اس فتنہ کے عزائم کی سمجھ آجاتی ہے مرزا بشیر الدین محمود نے 1952ء کو قادیانیوںکا سال قرار دیا تھا چودھری ظفر اللہ خاں وزیر خارجہ نے بیرون ممالک پاکستانی سفارت خانوں کو قادیانی تبلیغ کے اڈوں میں بدل کر رکھ دیا مجلس احرار ِ اسلام نے مشائخ وعلماء کرام وزعماء جماعت اسلامی اور تمام مکاتب فکرکُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم ِنبوت کے پلیٹ فارم پر یکجا ہوئے اور حکومت کو اپنے مطالبات پیش کیے، 1۔ لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ 2۔ کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹایا جائے اور چودھری ظفر اللہ خاں سے وزارت ِ خارجہ کا قلمدان واپس لیا جائے۔ مطالبات منظور کیے جانے کے بجائے ملک میں تحریک تحفظ ختمِ نبوت کو کچلنے کے لیے ریاستی تشدد کی انتہا کردی گئی قادیانی تنظیم فرقان بٹالین نے عاشقان ِ مصطفی پر گولیاں چلائیں کراچی، لاہور، کوئٹہ، ملتان، ساہیوال، فیصل آباد (اس وقت لائل پور)، گوجرانوالہ اور دیگر شہروں میں ہزاروں فرزندانِ توحید کے خون سے ہاتھ رنگے گئے، مال روڈ لاہور پر لاشوں کے ڈھیر لگ گئے جزوی مارشل لا کا جبر پاکستان میں سب سے پہلے تحریک تحفظ ِ ختم ِ نبوت پر آزمایا گیا، سید ابو الاعلیٰ مودودی کے خلاف مارشل لا کے ضابطہ نمبر 8 اور تعزیرات کی دفعہ 153۔ الف کے تحت مقدمہ چلایا گیا مولانا کو سزائے موت سنائی گئی تاہم اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہوسکا‘ قومی اسمبلی سے قرارداد منظور ہونے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں خطاب کیا۔ ان کا خطاب اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔
قومی اسمبلی کے اس فیصلے کے بعد قادیانی غیر مسلم ہیں، وہ اپنی عبادت گاہوں کے نام بھی مسلمانوں جیسے نہیں رکھ سکتے آئین انہیں غیر مسلم کہتا ہے کہ اور مگر یہ خود کو غیر مسلم نہیں کہتے لہٰذا اس طرح یہ قادیانی پاکستانی آئین کے باغی ہیں ہمارا آئین اقلیتوں کے آئینی حقوق کو مکمل تحفظ دینے کی بات کرتا ہے لیکن قادیانی خود کو اقلیت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہمارا آئین اجازت دیتا ہے کہ غیر مسلم سرکاری عہدوں پر فائز ہوسکتے ہیں مگر ان کو جو خود کو غیر مسلم تسلیم کرتے ہوں۔ جو لوگ سرے سے آئین ہی کو تسلیم نہیں کرتے، انہیں اعلیٰ عہدے اور منصب کیسے دیے جاسکتے ہیں۔ محمد متین خالد نے اپنی کتاب میں عیسائی ملکوں کی منافقت کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ انگریز برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت پر قابض ہوئے تو مسلمانوں کو زیر نگین رکھنے کے لیے تدبریں کرتے رہتے تھے۔ برصغیر سے انگریز کے نمائندے نے برطانیہ اپنی حکومت کو ایک تدبیر لکھی کہ برصغیر کے مسلمان پیر پرستی اور روحانیت کی طرف مائل ہیں۔ ان پر غلبہ مستحکم کرنے کے ان ہی میں سے نبی پیدا کیا جائے تو برصغیر میں مسلمان کو قابو رکھا جا سکتا ہے۔ یہ تحریر آل انڈیا آفس لائبریری میں اب بھی موجود ہے۔ عیسائی دنیا نے پوری دنیا اور برصغیر میں قادیانیوں کی ہر طرح سے مدد اور حمایت کا بیڑا اُٹھایا ہوا ہے۔ آج بھی برطانیہ میں قادیانیوں کا ہیڈ کواٹر ہے۔ قادیانیت پھیلانے کے لیے سیٹ لائٹ چینل کام کر رہے ہیں۔ اسرائیل میں قادیانی مشن اب بھی کام کر رہا ہے اسرائیلی پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہیں دی جاسکتی۔ کیا یہ مسلمانوں کے اظہار آزادی پر قدغن نہیں۔ ٹرمپ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو امریکا سے جانا ہو گا یورپ کے کئی ملکوں میں اسکاف پر پابندی لگائی گئی۔ یہ مغرب کا اظہار رائے کی آزادی ہے۔ مصنف نے اس قسم کے سیکڑوں واقعات اپنی کتاب میں درج کیے ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں اورعیسایوں کامسلمانوں کے ساتھ تعصب کرتے ہیں۔