کہنے کو دنیا بھر سے یورپی استعمار ختم ہوچکا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی کئی خطے آزادی، خودمختار اور حقوق ملنے کے منتظر ہیں۔ اگرچہ ان محروم اقوام کا تعلق مختلف مذاہب، رنگ ونسل اور خطوں سے ہے، لیکن استعماری دور کی طرح اب بھی مسلمان ہی قابض اقوام کے ظلم کا زیادہ شکار ہیں۔ برما (میانمر)، کشمیر، سنکیانگ، افغانستان، عراق، شام، فلسطین، مصر، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور مالی میں مسلمانوں کو براہِ راست بیرونی قبضے، ان کے آلہ کاروں کے ہاتھوں استیصال یا خانہ جنگی کا سامنا ہے۔ ان ممالک کے عوام ایک طرف اپنے ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، تو دوسری طرف انہیں اظہار کی آزادی کے لیے ایک بڑے معرکے کا سامنا ہے۔ دنیا بھر کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں ان کی آواز کو جگہ نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مظلوم مسلمان سماجی رابطے کی ویب سائٹس کا سہارا لیتے ہیں، لیکن انہیں اس پر بھی ویب سائٹ انتظامیہ کی جانب سے تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس حوالے سے عالم عرب کے معروف نیوز پورٹل مڈل ایسٹ آئی نے اپنی ایک رپورٹ میں برما، کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے فیس بک انتظامیہ کے متعصبانہ رویے پر روشنی ڈالی ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ برما سے کشمیر اور وہاں سے فلسطین تک فیس بک کے پلیٹ فارم کو مسلمانوں کے خلاف منافرت اور اشتعال کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، جو سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے مظلوم مسلمان برادریوں کے لیے حقیقی خطرہ ہونے کا پتا دیتا ہے۔ جب کہ رپورٹ میں اس سارے کھیل کی بڑی ذمے داری فیس بک انتظامیہ پر عائد کی گئی ہے۔
مڈل ایسٹ آئی کا کہنا ہے کہ فیس بک انتظامیہ اپنے پلیٹ فارم کو مسلمانوں کے خلاف بدترین نفرت اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے لیے استعمال ہونے سے روکنے میں بری طرح ناکام رہی ہے، بلکہ بڑی حد تک ظالم وقابض حکومتوں کے مفاد میں ایسے اکاؤنٹ اور پیج حذف کرچکی ہے، جو مظلوم مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ان 15 برسوں کے دوران کشمیر اور فلسطین کے انسانی حقوق کارکن فیس بک انتظامیہ کی جانب سے صرف اس وجہ سے اپنے اکاؤنٹ حذف اور معطل کیے جانے کی شکایت کرچکے ہیں کہ انہوں نے ایسی وڈیوز شیئر کیں، جن میں بھارتی یا اسرائیلی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دکھایا گیا تھا۔
2018ء میں روہنگیا نسل کشی کی عبوری تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کے موقع پر میانمر میں اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے انسانی حقوق یانگ ہی لی نے کہا تھا کہ قوم پرست بودھوں کے اپنے فیس بک اکاؤنٹ ہیں، اور وہ ان کے ذریعے روہنگیا یا دیگر نسلی اقلیتوں کے خلاف نفرت وتشدت کو ہوا دے رہے ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری کو متنبہ کیا تھا کہ فیس بک بے لگام ہوگئی ہے۔ اسی طرح تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ مرزوقی دارسمان نے بھی صراحت کی تھی کہ سوشل میڈیا نے بڑے پیمانے پر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میںکلیدی کردار ادا کیا۔
راکھین کی طرح کشمیر میں جدوجہد آزادی کے خلاف فیس بک کا معاندانہ رویہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے۔ 2016ء میں کشمیری مزاحمتی تنظیم حزب المجاہدین کے نوجوان کمانڈر برہان وانی کی شہادت پر فیس بک انتظامیہ نے کشمیریوں کے اکاؤنٹس اور پیجز کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کرتے ہوئے انہیں حذف یا معطل کردیا تھا۔ پھر گزشتہ سال کے اختتام پر فیس بک انتظامیہ نے ریڈیو پاکستان کی براہِ راست نشریات پر 2 ماہ کی پابندی عائد کردی تھی، جس کی وجہ بھی کشمیریوں پر بھارتی مظالم اور مقبوضہ وادی میں فوجی لاک ڈاؤن سے متعلق خبریں دکھانا تھی۔ پھر ایسا ہی مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور مسلمان دشمن شہریت قانون متعارف کرانے کے وقت بھی دیکھنے میں آیا۔ اس کے برخلاف فیس بک پر بھارتی جنتا پارٹی کے شرپسند رہنماؤں وعناصر، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کو نفرت پھیلانے کی کھلی اجازت دی گئی، جو اب بھی ہے۔
فلسطین کا حال بھی راکھین اور مقبوضہ جموں وکشمیر سے مختلف نہیں، بلکہ شاید فیس بک کے لیے یہ اہم ترین معاملہ ہے۔ فیس بک انتظامیہ فلسطینیوں کی تحریک سے متعلق جس تعصب کا مظاہرہ کرتی ہے، اس کی کوئی نظیر نہیں۔ خاص طور پر اسرائیلی فوج کے مظالم اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مواد کو سنسر کے نام پر حذف کردیا جاتا ہے۔ فیس بک انتظامیہ کی جانب سے اکثر اس کی وجہ ’’ناقابل اشاعت مواد‘‘ یعنی فلسطینیوں کی خون میں لت پت لاشیں بتائی جاتی ہے، لیکن حقیقت میں اس کا مقصد اسرائیلی فوج کے جرائم پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ گزشتہ برس شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ فیس بک کی ملکیت واٹس ایپ نے فلسطینی صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے تقریباً 100 اکاؤنٹ حذف یا معطل کردیے ہیں۔ یہ اکاؤنٹ نومبر 2019ء کی اسرائیلی جارحیت کے دوران دنیا کو صہیونی ریاست کے جنگی جرائم دکھا رہے تھے۔
غرض فیس بک انتظامیہ نے ہر موقع پر شرانگیزوں کو ناصرف مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کی کھلی چھوٹ دیے رکھی، بلکہ کمزور مسلمانوں اور ان کے لیے آواز اٹھانے والوں کا گلا دبانے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ دنیا کے سامنے فیس بک انتظامیہ کا نسل پرستانہ چہرہ سامنے آنے لگا، تو اس نے تحقیقات، اقدامات اور محتاط حکمت عملی بنانے کے نام پر لیپا پوتی تو ضرور کی، لیکن اس کے طرزِ عمل میں آج تک کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔