نیویارک(انٹرنیشنل ڈیسک) ایران کے خلاف امریکی مہم عالمی سطح پر ناکامی سے دوچار ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ ایران کے خلاف وہ پابندیاں پھر لگا دے جو اٹھائی جاچکی ہیں یا اٹھائی جا رہی ہیں، لیکن ٹرمپ انتظامیہ کو سلامتی کونسل میں ایک تاریخی ناکامی کا سامنا ہے۔ کونسل کے 15 میں سے 13 ممالک اس امریکی مطالبے کے خلاف ہیں۔ خبررساں اداروں کے مطابق امریکی حکومت نے ایران کے خلاف عالمی ادارے کی ماضی میں اٹھائی جا چکی پابندیاں بحال کرنے کا جو مطالبہ کیا ہے، اس کے نتیجے میں امریکا خود ہی الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ عالمی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کی تعداد 15 ہے اور ان میں سے 13 نے تہران سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبے کی تحریری مخالفت کر دی ہے۔ ان ممالک نے امریکی کوشش کی مخالفت یہ کہہ کر کی کہ یہ درست ہے کہ ماضی میں اقوام متحدہ نے ایران کے خلاف اس کے متنازع جوہری پروگرام کی وجہ سے پابندیاں لگائی تھیں۔ پھر عالمی طاقتوں کا ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ طے پا گیا تو یہ پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔اب لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے ان پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ تو کر دیا ہے، مگر ساتھ ہی واشنگٹن حکومت یہ بھول گئی ہے کہ خود امریکی صدر ٹرمپ نے ہی 2 سال قبل یک طرفہ طور پر یہ اعلان کر دیا تھا کہ امریکا ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے نکل رہا ہے۔ ان 13 ممالک کے مطابق امریکا کی یہ کوشش اس لیے غلط ہے کہ اس نے تو اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کر دیا تھا، جس پر اقوام متحدہ نے بھی باقاعدہ اتفاق کیا تھا، تو اب امریکا کس منطق کے تحت دوبارہ ایران کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ 13رکن ممالک نے سلامتی کونسل کے صدر کو لکھے گئے خطوط میں کہا ہے کہ ایران کے خلاف عالمی پابندیاں بحال نہیں کی جانی چاہییں۔ جب کہ سلامتی کونسل کے رکن ملک ڈومینیکن ریپبلک نے ابھی تک بظاہر یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ امریکی مطالبے کی حمایت کرے گا یا مخالفت۔