’’مسلمانو! آج بہت بڑے امتحان کا دن ہے۔ سپہ سالار کی کامیابی کے لیے دعا کرو!‘‘ اندلس میں طوائف الملوکی کے دور میں قسطلہ کے نصرانی فرماں روا الفانسو نے اشبیلیہ کے بادشاہ معتمد العباد پر حملے کا ارادہ کیا تو اس نے اپنے وزیر ابن عمار کو الفانسو سے مقابلے کے لیے روانہ کیا۔ یہ ابن عمار کی پالکی تھی جس کے آگے آگے نقیب با آواز بلند مسلمانوں کو سپہ سالار کی فتح کے لیے دعا کی ترغیب دے رہا تھا اور لوگ ہاتھ اٹھا کر اس کے لیے دعا کررہے تھے۔ لیکن بہت کم جانتے تھے کہ یہ مقابلہ کس نوعیت کا ہے۔ ابن عمار نے جنگ لڑنے کے بجائے حیلہ جوئی سے کام لیا۔ اس نے الفانسو کے کانوں تک شطرنج کی ایک بساط کے قصیدے پہنچائے، جس کے مہرے بیش قیمت ہیروں کو تراش کر بنائے گئے تھے۔ الفانسو اسے حاصل کرنے کے لیے بے چین ہوگیا۔ ابن عمار نے شرط لگائی کہ نصرانی بادشاہ کو میرے ساتھ ایک بازی کھیلنی ہوگی، اگر وہ جیت گیا تو یہ بساط اس کی، میں جیتا تو اسے میری ایک درخواست قبول کرنی ہوگی اور وہ یہ ہے کہ اشبیلیہ پر حملے کا ارادہ ملتوی کردے۔ تاریخ اندلس کی مختلف کتابوں میں ابن عمار اور الفانسو کے شطرنج کے مقابلے کی تفصیلات ملتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ابن عمار جیت گیا اور الفانسو نے حملہ نہیں کیا۔
پاکستان کو بنے ہوئے 73برس ہوگئے۔ 14گست کا دن آیا اور گزر گیا، پوری قوم نے جوش وخروش سے آزادی کا مظاہرہ کیا۔ آزادی کے نام پر جو طوفان بدتمیزی کے مناظر دکھائی دیے ان کو دیکھ کر سنجیدہ لوگ دل ہی دل میں کڑھنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ملی نغموں کے نام پر شور شرابا، نعروں کے بجائے باجے، یہ سب کیا ہے؟۔ بھلا ایسا ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا… ایسی قوم جو خود کو آخری نبی کا نام لیو ا گردانتی ہے… ایسی مقدس زمین جس کی آبیاری لاکھوں جانوں سے کی گئی۔ ایسی نسل جس کی بقا ان ماؤں کی مرہون منت ہے جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے کٹتے دیکھا، ایسے بوڑھوں کا صدقہ ہے جنہوں نے اپنے خاندانوں کو اجڑتے دیکھا، ایسے ملک کی مقدس زمین پر جب قوم کی آئندہ نسلیں اس طرح کی حرکتیں کریں گی تو اس نظریے کی پاسداری کون کرے گا جس کی بنیاد علامہ اقبال نے رکھی، قائد اعظم نے اس پر محنت کی اور برصغیر کے مسلمانوں نے اس کو عملی جامہ پہنایا۔ بحیثیت قوم ہم ذہنی طور پر کس قدر پست ہوچکے ہیں، ایسے مناظرسے بھر پور انداز میں اس کی عکاسی ہوتی ہے۔ ہمارے طور طریقے اور اظہار فرح وسرور جذبات اور روحانیت سے عاری ہوچکے ہیں۔ سیاسی دھرنے ہوں یا کوئی لانگ مارچ، محرم کے جلوس ہوں یا ربیع الاول کی ریلیاں، 14اگست ہو یا کوئی اور ملکی سرگرمی، ہمارے عوام صرف اور صرف تفریح کے لیے شریک ہوتے ہیں۔ دینی شعائر کا کسی کو خیال ہوتا ہے نہ اخلاقی حدود کا پاس، ملحوظ ہوتا ہے تو صرف یہ کہ کس جگہ انجوائے منٹ اور ریفریشمنٹ اچھی ہوگی۔ دہن دوزی کا لالچ دے کر آپ عوام کو جہاں چاہیں لے جائیں۔ جس جلسے، ریلی یا دھرنے میں چاہیں شرکت کی دعوت دے لیں یہ بخوشی ساتھ آنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
آج پاکستان دنیا میں جس مقام پر کھڑا ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ بھارت ہماری سرحد پر حملے کررہا ہے۔ کشمیر کے عوام آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ 14اگست ایسا موقع تھا جہاں ہم اپنی ملی قوت ویک جہتی کے جذبے، دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے عزائم اور بھر پور جنگی صلاحیتوں کا اظہار کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: اور (مسلمانو!) جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں، ان (کافروں) سے مقابلے کے لیے تیار کرو، جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے (موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جنہیں ابھی تم نہیں جانتے، (مگر) اللہ انہیں جانتا ہے۔ (الانفال: ۶۰) لیکن افسوس ہم دو طیارے گرانے کے بعد اب مورچہ بند ہوکر گانے ریلیز کرنے میں مشغول ہیں۔ 14اگست پر ہم نے ملی نغمے تو گنگنائے لیکن کبھی ان کے الفاظ پر غور نہیں کیا۔ پاکستان کا مطلب کیا… لاالہ الا اللہ کا نعرہ تو لگایا لیکن لاالہ الا اللہ کی حقیقت کو جان نہ سکے۔ زبانوں نے پاکستان زندہ آباد کہا لیکن زندہ آباد کی قدرو منزلت سے آشنا نہ ہوسکیں۔ 1947ء میں ایک لگن، ایک آس تھی جس کے نتیجے میں ہندوستان سے آنے والے لٹے پٹے قافلوں نے پاکستان پہنچ کر نئی زندگی شروع کی۔ 1965ء میں جذبہ جہاد تھا کہ لوگ جنگی وسائل سے بے پروا ہوکر ملک کی حفاظت کے لیے امڈ آئے تھے۔ 1971ء جب یہ جذبہ کم ہوا تو خوف وہراس نے اس کی جگہ لے لی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اور آج کے ان تھرکتے مٹکتے، ناچتے گاتے نوجوانوں کو دیکھ کر گمان نہیں ہوتا کہ سنجیدگی ان کو چھو کر بھی گزری ہے۔
میڈیا پر ہر وقت موسیقی، رقص وسرود کے مناظر دکھائے جارہے ہیں، ناچ کے بعد اب مقابلہ حسن بھی شروع ہوگیا ہے شاید اس بہانے پاکستانی مصنوعات کو دنیا بھر متعارف کرانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ جن بے چاروں کو اپنے فن کے مظاہرے کا موقع نہیں ملتا وہ کسی نہ کسی طرح اپنا ٹیلنٹ دکھانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ چھٹی کے دن ساحل سمندر اور تفریحی مقامات پر اور چودہ اگست اور دیگر تہواروں پر انہیں اچھی خاصی داد بھی مل جاتی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے دشمنوں کی تعدا د اس کے دوستوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسے ملک کے عوام فنون حرب کے بجائے گانے بجانے میں مشغول ہیں۔ شاید ان کو گمان ہے کہ ان کے ساتھ بھی اشبیلیہ کے ابن عمار جیسا معاملہ پیش آئے گا، جبھی توکرکٹ میچ جیت کر سمجھتے ہیں گویا بھارت فتح کرلیا۔ ہمارے وزیر اعظم امریکی صدر کے ہاتھ سے کرکٹ کا بلا وصول کرکے سمجھتے ہیں کہ قارون کے خزانے کی چابی مل گئی اور آئی ایم ایف و عرب ممالک ان کی جھولی دولت سے بھردیں گے۔ ہماری قوم کیوں بھول جاتی ہے کہ ہم اداکاری، گلوکاری اور فنکاری کی انتہا کو بھی پہنچ جائیں تب بھی مید ان جنگ میں ہمارا سامنا گولا بارود اور ہتھیاروں ہی سے ہوگا۔ ہماری روش اگر یہی رہی تو ہمارا انجام بھی جنگل کے بادشاہ شیر کے اس بچے سے مختلف نہیں ہوگا جس کو شکاری اٹھا کر لے گئے اور سرکس میں فرخت کردیا۔ وہاں اس کی اصلیت مسخ ہوگئی اور اس نے ناچنا گانا سیکھ لیا۔ جب وہ بڑا ہوا تو سرکس سے فرار ہو کر جنگل پہنچ گیا جہاں اس کی ملاقات اپنے ماں باپ سے ہوگئی۔ اس نے اپنے باپ کو بتایا کہ وہ نیویارک کا بادشاہ کہلاتا تھا تو باپ کا سر فخر سے بلند ہوگیا اور اس کو جنگل کا نیا بادشاہ نامزد کردیا۔ لیکن پہلے اسے دوسرے شیروں سے مقابلہ کرنا تھا۔ سرکس کا شیر تو نیویارک سے امن کی بھاشا سیکھ کر آیا تھا، لڑائی بھڑائی کا کیا مطلب ہے، وہ نہیں جانتا تھا۔ اس کا یہی خیال تھا کہ ناچنے کا مقابلہ ہوگا، چنانچہ جب مقابلہ شروع ہوا تو اس نے ناچنے گانے اور پینترے بدلنے کا مظاہر کیا۔ جنگل کے باسیوں کے لیے یہ قطعاً نامانوس تھا۔ آخر جب اس کی پٹائی ہوئی تو نیویارک کے بادشاہ کی عزت خاک میں مل گئی، البتہ یہ ضرور معلوم ہوگیا کہ افریقا اور نیویارک کے بادشاہ میں فرق ہوتا ہے۔