واشنگٹن ؍ برلن ؍ ریاض (انٹرنیشنل ڈیسک) سلامتی کونسل میں ایران مخالف اقدامات کے لیے دنیا کی حمایت حاصل کرنے میں زبردست شکست کے بعد امریکا اقوام متحدہ میں تہران حکومت پر پابندیاں عائد کرنے کی قراردار پیش کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی خواہش ہے کہ اقوام متحدہ ایران پر مزید سخت پابندیاں عائد کرے جب کہ 2015ء میں ہونے والے جوہری معاہدے کے بعد عالمی ادارے نے ایران پر پابندیاں نرم کردیں تھیں۔ سمجھوتے سے یکطرفہ علاحدگی کے بعد امریکا نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کی تھیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل میں ایران کو اسلحہ کی فروخت پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کی مدت میں توسیع کی قرارداد بھی پیش کی گئی، جس میں امریکا کو شرمناک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، جس پر امریکا نئی چال چلنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو آج نیو یارک میں سلامتی کونسل کے صدر سے ’’اسنیپ بیک میکنزم‘‘ متحرک کرنے کی اپیل کریں گے۔ عالمی کونسل کا یہی ضابطہ جوہری معاہدے کی توثیق کرتا ہے، تاہم اگر یہ لاگو کردیا جائے تو کوئی بھی رکن اقوام متحدہ کی تمام پابندیوں کی بحالی کا نہ صرف مطالبہ کر سکتا ہے بلکہ کوئی بھی رکن ملک ویٹو کے ذریعے اسے روک بھی نہیں سکتا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ امریکی کوشش سے ٹرمپ انتظامیہ مزید تنہائی کا شکار ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی اقوام متحدہ کی ساکھ بھی داؤ پر لگ جائے گی۔ امریکی دباؤ کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے سب سے طاقت ور ادارے سلامتی کونسل کے وجود ہی پر سوالات اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔ دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے جرمنی میں اپنے ہم منصب ہائیکو ماس سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ایران یمن میں حوثی ملیشیا کو اسلحہ فراہم کررہا ہے، لہٰذا اس پر عائد ہتھیاروں کی پابندی میں توسیع کی جانی چاہیے۔ اُدھر شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی صدارت میں سعودی کابینہ کا وڈیو اجلاس منعقد ہوا، جس میں کہا گیا ہے کہ ایران پر عائد روایتی یا غیر روایتی ہر قسم کے ہتھیاروں کی پابندی اٹھانے کے نتیجے میں مزید تباہی اور بربادی سامنے آئے گی۔ علاوہ ازیں امریکا کے ففتھ فلیٹ کے کمانڈر وائس ایڈمرل جیمز میلوی نے کہا ہے کہ اتحادی افواج خلیج عمان اور خلیج عرب میں ایران کی نقل و حرکت کی قریب سے نگرانی کررہی ہیں۔ عرب روزنامے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نگرانی میں آبی گزر گاہیں اور تمام تجارتی جہاز بھی شامل ہیں۔