فاقہ مستی کا رنگ ظاہر ہوچلا ہے

1021

چچا غالب نے کہا تھا:
’’قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن‘‘
قرض کی مے پی کر مستی میں ڈوب جانے والے جب بیدار ہوئے تب انہوں نے دیکھا کہ پوری قوم پر فاقہ مستی کا رنگ چڑھ چکا ہے اور وہ اپنی آنکھیں مَل مَل کر رنگِ وفا تلاش کررہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے خود بادشاہ بننے کی خاطر ملک وملّت کو ایک بڑی بھاری جنگ میں جھونک دیا نتیجتاً ملک دو لخت ہوگیا اور پوری قوم قلّاش ہوگئی۔ بھٹو صاحب نے ایک دوسری بڑی حماقت یہ کی کہ ملک کا خزانہ بھرنے کے لیے کوئی حکمت عملی وضع کرنے کے بجائے غیر شرعی اور غیر اخلاقی حرکتیں کرکے سرمایہ کاری کرنے والوں کی گردنیں دبوچنا شروع کردیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف ملک میں سرمایہ کاری رک گئی بلکہ سرمایہ کار اپنے سرمائے سمیت دیگر ملکوں میں منتقل ہوگئے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب پاکستان نے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا شروع کردیا تھا۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ طاغوت اپنی اصل حالت میں کبھی ظاہر نہیں ہوتا ہے اگر وہ ایسا کرلے تو کوئی بھی شخص نہ تو اُس کے پاس کبھی جائے گا ا ور نہ اُس کو ہی اپنے پاس پھٹکنے دے گا۔ شیطانوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ انسانی رُوپ اختیار کرکے انسانوں کے پاس آتا اور جاتا ہے۔ بقول شاعر:
’’یہی لوگ ہیں‘ ازل سے جو فریب دے رہے ہیں
کبھی ڈال کر نقابیں‘ کبھی اوڑھ کر لبادہ‘‘
سیّاس یعنی سیاست دان اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو قوم وملک کے مسائل پر غور کرتا ہے‘ وہ اُس کی نشاندہی کرتا ہے اور اُس کا حل بھی دریافت کرتا ہے۔ آج کا سیاست دان بھی یہی کچھ کرتا ہے لیکن اُس نے اپنا اندازِ فکر ذرا تبدیل کرلیا ہے۔ اَب وہ ملک وملّت کی زندگی استوار کرنے کے بجائے اپنا اور اپنے گھر والوں کی پریشانیوں کو رفع کرنے کی فکر میں مبتلا نظر آتا ہے۔ ہمارے ملک کے سیاست دانوں کو نہ تو دوستوں کی پہچان ہے اور نہ وہ دشمنوںکی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنے کے اہل ہیں۔ وہ شخص یا کوئی گروہ جو آپ کی مالی یا جسمانی مدد اگر کبھی کردے اور اُس کے عوض آپ سے کچھ طلب نہ کرے تو سمجھ لیجیے کہ وہ آپ کا حقیقی اور سچّا دوست ہے۔ وہ لوگ جو آپ کے ہاتھوں میں کچھ روپے یا آپ کی ضرورت کے مطابق رقم پکڑا دیں اور یہ کہیں کہ جب تم چاہنا میری رقم مجھے واپس لَوٹا دینا‘ ایسے لوگ معیاری دوست کہلاسکتے ہیں۔ وہ لوگ جو کسی کی مالی مدد کسی مقررہ وقت تک کے لیے کرتے ہیں اور اُس کے بدلے میں اُس سے کچھ بھی خواہش نہیں کرتے ہیں‘ وہ آدھے دوست کہلانے کے مستحق ہیں۔ جو لوگ کسی کی مالی مدد اِس لیے کرتے ہیں تاکہ اُس سے سُود کمائیں اُنہیں اپنا دوست ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے۔ سود پر دینے والے کس طرح کے دوست ہوتے ہیں اِسے سمجھنے کے لیے ایک عام سی مثال بینکوں کی ہے اگر آپ نے کسی بینک سے قرض لے کر کوئی چیز مثلاً کوئی گھر یا گاڑی خریدلی تو وہ شے آپ کی اُس وقت تک ہرگز نہیں ہوسکتی ہے تاوقتیکہ آپ بینک کو اُس کی دی ہوئی رقوم سود کے ساتھ واپس کردیں‘ اگر آپ نے وقتِ مقررہ پر بینک کو رقوم واپس نہ کردی تو وہ آپ سے اپنی گاڑی چھین لے گا اور آپ کو دیے ہوئے گھر سے بے دخل کردے گا۔
بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ سعودی فرمانرواؤں نے پاکستان کی جو مالی امداد کی ہے وہ اِس نیکی کے عوض ہم سے سود چاہتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ سعودی سود کی شرح دیگر اداروں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ تاہم سعودی ہمارے کیسے دوست ہیں‘ اُوپر بیان کردہ کسوٹی پر پرکھ لینے سے معلوم ہوجائے گا۔ وہ ممالک جو پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں جیسے نیپال‘ بھوٹان‘ سری لنکا‘ ترکی اور ملائیشیا وغیرہ اُن ممالک کو عالمی سازشی اداروں نے اُلجھا رکھا ہے اور اُن کے مالی معاملات اور اُن کی معیشت کو اپنی گرفت میں لے کر اُنہیں شش وپنج میں مبتلا کر رکھا ہے۔
ہم مسلمانوں کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں آخر قرض لینے کی حاجت کیوں ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کو استوار رکھنے کے لیے تین چار بنیادی ضروریات ہیں۔ کھانا، کپڑا، مکان اور ادویہ۔ آدمی کو زندہ رہنے کے لیے خوشبویات کا استعمال اور انگریزی طرز کی پکی ہوئی خوراک کھانا ضروری نہیں ہے۔ پکّی سڑکوں پر چلتے ہوئے ہمارے جوتے تو گھِس سکتے ہیں لیکن کچّی زمین پر چلتے ہوئے ہمارے پَیر نہیں گھِستے۔ منزل پر پہنچنے کے لیے قیمتی گاڑیوں کا استعمال بھی ضروری نہیں ہے اِسی طرح قیمتی کپڑے پہن کر نمائش کرنے کی بھی حاجت نہیں ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ سارے لوگ بیل گاڑیوں پر بیٹھ کر آمد ورفت شروع کردیں اور موٹر گاڑیوں کو دریا بُرد کردیا جائے یا کپڑوں کی جگہ اپنے بدن کو بوریوں سے یا درختوں کے پتّوں سے یا اُن کے چھالوں سے ڈھکنے کا عمل شروع کردیا جائے۔ عوام کو اور حکمرانوں کو اپنی اپنی سطح پر بہرحال یہ طے کرنا ضروری ہوگا کہ اُنہیں قرض کی دَلدل ہی میں اُترتے رہنا ہے یا اُس دَلدل سے باہر نکلنے کی کوشش بھی کرنی ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ قرض لینے کی رَوِش ترک کردیں اور عوام کو آگاہ کریں کہ اُنہیں کن کن ممالک کا اور کتنا مقروض کردیا گیا ہے اور یہ کہ حکمرانوں کو قرض لینا کیوں ضروری ہے اور اُن قرضوں کے عوض کتنے سود کی ادائیگی کی جائے گی۔ اِس اعلان کے بعد بہت ممکن ہے کہ ہمارے ملک میں ہی کچھ متموّل اور صاحبِ ثروت لوگ سامنے آجائیں اور قرض کی ادائیگی میں تعاون کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ یہ حقیقت بھی ملحوظ خاطر رہے کہ مسلمان بھائی کا دُکھ دور کرنے کا جذبہ دیگر ملکوں میں بسنے والے مسلمان بھائیوں کے دل میں بھی ہوسکتا ہے اور وہ ہماری گلوخلاصی کے لیے بھی اقدامات کرسکتے ہیں بشرط کہ حکمرانوں کے اعلانات دل پزیر اور اثرانگیز بھی ہوں۔ کارخانہ دار اور تاجر برادری بینکوں کے شکنجے سے نکلنے کی فکر کریں اور عوام میں سے جو سودی قرضوں کے جال میں پھنس چکے ہیں، اُنہیں چاہیے کہ وہ اپنے پیٹ کاٹ کر قرض کی ادائیگی کرنا شروع کردیں اور ہما شما جیسے لوگ قسطوں پر غیر ضروری اَشیا خرید کر گھروں میں رونق بڑھانے کی چَلن سے باز آجائیں کیونکہ یہ بھی سود کی ایک شکل ہے۔ آخر میں مَیں اپنے نفسِ مضمون کی طرف آتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جس سے قرض لیا جائے اُس کے خط وخال کو بھی اپنی نگاہوں میں رکھنا چاہیے۔ قرض دینے والا اگر تن وتوش میں بہت بھاری ہو اور آپ یہ بھی دیکھ رہے ہوں کہ وہ ہر طرح کے اسلحوں سے لیس ہے تو ایسے قرض خواہوں سے دُور بلکہ بہت دُور ہی رہنا بہتر ہے کیونکہ اُس سے نہ صرف آپ ہی کی جان کوخطرہ لاحق رہے گا بلکہ آپ کا پورا کنبہ بھی ہمیشہ کے لیے لرزہ براندام رہے گا اور ایسے زور آور ملک کا مقروض اگر کوئی حکمران ہوجائے تو حکمرانوں سمیت ملک کی عوام کو ہمیشہ سجدہ ریز رہنے کی حاجت ہوگی۔