اسلام آباد ( نمائندہ جسارت) جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں نہیں، ماموں کی جگہ بھانجے اور چچا کی جگہ بھتیجے کو لانا تبدیلی نہیں،یہ تماشا قوم کے ساتھ بدترین مذاق ہوگا۔ یہ تبدیلی والی نہیں تباہی والی سرکار ہے جس نے عوام کے730 دن ضائع کردیے‘ریسرچ کے باوجود حکومت کا کوئی ایک اچھا کام نہیں مل سکتاوزیر اعظم اسرائیل کے معاملے پر اگر مگر سے کام نہ لیں واضح طور پر کہیں کہ یہ ڈاکو ہے اور ڈاکو کے ساتھ ڈاکوئوں والا ہی برتائو ہونا چاہیے۔اسرائیل اژدھا ہے جس سے بچنے کیلیے عالم اسلام کو متحد ہونا ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سرپرستی کے باوجود دوسال سے حکومت کچھ نہیں کرسکی۔ اسٹیبلشمنٹ کب تک حکومت کوانگلی سے پکڑ کر چلاتی رہے گی،یہ پولیو زدہ حکومت اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل نہیںہوسکتی‘ یہ تبدیلی والی نہیں تباہی والی سرکار ہے جس نے عوام کے 730 دن ضائع کردیے۔ریسرچ کے باوجود حکومت کا کوئی ایک اچھا کام نہیں مل سکتا۔ چار وزراء نے تو سچ بول دیا ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکے ‘وزیر اعظم نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہمیشہ سچ بولیں گے اب انہیں بھی ہمت کرکے ایک سچ تو بول دینا چاہیے۔ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے دباؤ پرہونے والی قانون سازی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن حکومت کی سہولت کار بن گئی ہیں۔ موجودہ حکومت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کا تسلسل اور اسٹیٹس کو کی محافظ ہے ملک و قوم کے مسائل کا حل صرف نظام مصطفی ﷺ میں ہے،یہ کوئی نیا نظام نہیں 73کے آئین میں نظام مصطفی ﷺکا پوراسٹرکچر موجود ہے۔ قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی قائم ہوجائے تو کسی نئے نظام کی ضرورت نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے الفلاح ہال اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کیا۔پر یس کانفرنس میں نائب امیر میاں محمد اسلم،خیبر پختونخوا کے امیر سینیٹر مشتاق احمد خان، اسلام آباد کے امیر نصراللہ رندھاوا،تنظیم تاجران پاکستان کے صدر کاشف چودھری ‘ سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف اورشاہد شمسی بھی موجود تھے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اپوزیشن عوام کی نمائندگی کرنے کے بجائے ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر قانون سازی میں حکومت کا ساتھ دیتی ہے۔سابقہ حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی اشرافیہ کی مسلط کردہ ہے جس کو عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں، ملک کے مسائل کا حل دیانتدار قیادت میں ہے، اب عوام کے سوچنے اور اس ظلم و جبر کے اس نظام کے خلاف اٹھنے کا وقت ہے۔ حکومت نے کچھ کیا ہوتا تو وزراء کو بار بار پریس کانفرنسیں نہ کرنا پڑتیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر اسلامی ممالک نے ہمارا ساتھ دیا، ترکی، ملائیشیا، ایران کا مؤقف بڑا واضح ہے۔ سعودیہ نے بھی ہمیشہ کشمیر موقف پر ہمارا ساتھ دیا مگر اس حکومت کی ناکامی ہے کہ اب ہمارے دوست ملک ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ ہم کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس بھی طلب نہیں کرسکے۔ یحییٰ خان کے دور حکومت میں بنگلا دیش الگ ہو گیا اور اس حکومت کے ہاتھوں کشمیر کھسک رہا ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ مارشل لا کے دور میں بھی میڈیا پر اتنی پابندیاں نہیں تھیںجتنی موجودہ حکومت میں ہیں۔ یہاں تک کہ خاتون صحافیوں کو حکومت کے خلاف بولنے پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ میر شکیل الرحمن کو بغیر کسی ثبوت کے قید رکھا ہوا ہے۔ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوںکو دھمکیاں ملتی ہیں۔ عوام کے سامنے سچ لانے والے صحافیوں کو مطیع اللہ جان کی طرح اغواء کر لیا جاتا ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اپوزیشن کاشفاف، غیر جانبدار اور دھاندلی سے پاک انتخابات کے انعقاد پرمتحد ہونا ضروری ہے تبھی جمہوریت مضبوط ہوگی اور عوام کا انتخابی نظام پر اعتماد بحال ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہر وہ کام جس کے کرنے کا عوام سے وعدہ کیا گیا وہ نہیں ہو سکا۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ خصوصی طیارے استعمال نہیں کریں گے۔ مگر وزیر تو وزیر مشیر تک خصوصی طیارے استعمال کرتے رہے۔ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ ہم آئی این ایف سے قرض نہیں لیں گے۔ اس حکومت نے گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ قرضے لیے۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ نظام حکومت کو آرڈیننس سے نہیں چلائیں گے مگر حکومت نے پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے29 بلز اور36 آرڈیننسز پاس کیے۔ حکومت نے29 میں سے12 بلز ایف اے ٹی ایف کے حکم پر پاس کیے۔ جیسے ہی کوئی وزیر مستعفی ہوتا ہے سیدھا بیرون ملک روانہ ہو جاتا ہے۔ حکومت میں بیٹھے لوگ اپنے سرمایے کو بڑھانے پر لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے درست فرمایا ہے کہ حکومت کو مافیاز چلا رہے ہیں۔ قوم پرآٹا مافیا، چینی مافیا، پیٹرول مافیا اور ڈرگ مافیا مسلط ہے۔ آٹا اور چینی کمیشنز کی رپورٹس آنے کے بعد ان کو محفوظ ایگزٹ دیا گیا۔ مافیاز کو طاقتور کیا جا رہا ہے۔ ملک میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ انہوںنے کہا کہ پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان اور نواجوانوں کا مستقبل تباہ کیا۔ پاکستان پر اس وقت 43000 ارب سے زاید قرضہ ہے۔ حکومت سود پر قرضے لے کرچل رہی ہے۔ موجودہ حکومت نے ڈالر کو 168 روپے تک پہنچا دیا۔ پی ٹی آئی کے حکومت میں آنے کے بعد روپیہ مزید گراوٹ کا شکار ہوا۔اس وقت شرح نمو 0.45 ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت نیپال، بھوٹان، بنگلا دیش اور سری لنکا کی کرنسی بھی ہم سے زیادہ طاقتور ہے۔ حکومت کورونا کے نام پر آنے والی اربوں ڈالر کی مالی امداد بھی ہڑپ کر گئی۔ واحد حکومت ہے جس نے کورونا میں بھی آٹے اور چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا۔ موجودہ حکومت نے 2 سال میں چینی57 سے107 روپے تک اضافہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت کے آنے سے قبل سونے کی فی تولہ قیمت 57000 اور اب ایک لاکھ 20 ہزار ہو گئی ہے۔ تبدیلی کے شوق میں سونا مہنگا ہونے سے نوجوان شادیوں سے محروم ہو گئے۔ جماعت اسلامی سودی نظام کے خلاف عدالت میں کیس لڑ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور اب پی ٹی آئی حکومت کا وکلا کا ایک ہی پینل ہے جو سودی نظام کو مستحکم کر رہا ہے اور اس کے حق میں کیس لڑ رہا ہے۔ موجودہ حکومت میں جرائم میں اضافہ ہوا ہے،پولیس کا نظام تبدیل کرنے کے دعویدار ہر روز تبادلے کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت میں لوگ جائز کاموں میں بھی رشوت دینے پر مجبور ہیںساہیوال کے واقعہ کی آج تک تحقیقات منظر عام پر نہیں آئی۔بلوچستان میں سٹوڈنٹ حیات اللہ بلوچ کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ نقیب اللہ محسود کے قاتل آج تک نہیں پکڑے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں امن و امان کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکامی سے دوچار ہے گزشتہ 2 سالوں میں او آئی سی کا ایک اجلاس بھی نہیں بلا سکے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم امریکا جا کر کہتے ہیں اسامہ بن لادن کو ہمارے اداروں نے پالا تھا،ناکام خارجہ پالیسی سے پی ٹی آئی کی حکومت میں دوست کم اور دشمن بڑھ گئے