کراچی کے مسائل کے سدباب کا شور، نتیجہ کیا ہوگا؟

1012

کراچی میں بارشیں کیا ہوئیں صوبائی کیا وفاقی حکومت بھی ہوش میں آگئی۔ اسی دوران عدالت عظمیٰ نے بھی کراچی سے متعلق مسائل کے مقدمات کی سماعت کی اور سوال کیا کہ کیا کراچی یتیم ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے اداروں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ (این ڈی ایم اے) فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) اور پاک فوج کو ندی نالے صاف کرنے کے لیے کراچی بھیج دیا ان اداروں کے اچانک یہاں بھیجے جانے سے، صوبائی حکومت شکوک وشبہات میں مبتلا ہوگئی کہ کہیں ندی نالوں کی صفائی کی آڑ میں وفاقی حکومت اپنے اداروں کے ذریعے صوبائی حکومت کو تو ’’صاف‘‘ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ یہ خوف اس لیے بھی پیدا ہوا کہ پچھلے دو تین ماہ سے یہ بازگشت تھی کہ وفاقی حکومت کراچی کا انتظامی کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔ بات کراچی کو انتظامی طور پر کنٹرول میں لینے کی اور سندھی حکمران اور سندھ کے وڈیرے کم دانشور یہ نہ سمجھیں کہ یہ سندھ توڑنے کی بات ہے، ایسا ہو نہیں سکتا۔ اسی خوف میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اس قدر پریشان ہوئے کہ انہوں نے 17 اگست کو پریس کانفرنس کر ڈالی اور صحافیوں کے ذریعے سب کو یہ بتایا کہ ’’سندھ ہماری ماں ہے، کسی کو اس کے ٹکڑے نہیں کرنے دیں گے۔ یہ لوگ سندھ کے نہیں بلکہ پاکستان کے دشمن ہیں‘‘۔ مراد علی شاہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ ’’سندھ ان کی سوتیلی ماں ہے یا سگی‘‘۔ یہ سوال اس لیے لوگوں کے ذہن میں آیا کہ گزشتہ بارہ سال سے سندھ کے ساتھ یہاں کے حکمران جو کچھ کررہے ہیں وہ تو کوئی اپنی سوتیلی اولاد کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔ جبکہ اس دھرتی ماں کو یہاں کے بلکہ پیپلز پارٹی ہی کے اپنے حکمران دیہی سندھ اور شہری سندھ کے نام سے ٹکڑے کرچکے ہیں۔ اب یہ نہیں معلوم کہ ان میں سندھ ماں کے دل کا ٹکڑا اور جگر کا ٹکڑا کون سا ہے یا کسے سمجھا جاتا ہے۔
لیکن یہاں شور تو کراچی کے انتظامی کنٹرول کا ہورہا ہے جو پاکستان کے قیام کے وقت بھی انتظامی طور پر وفاق کے کنٹرول میں تھا بلکہ ملک کا دارالحکومت بھی تھا لیکن 1960 میں ایک فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے اقتدار کے نشے میں اسے سندھ کے سپرد کردیا تھا بعدازاں ایک منصوبے کے تحت اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک کو لسانی بنیادوں پر چار صوبوں سندھ، پنجاب، بلوچستان اور سرحد (کے پی کے) میں تقسیم کردیا گیا اور کراچی ملک کے دارالحکومت کے بجائے سندھ کا دارالحکومت بنادیا گیا۔ اس طرح کراچی صوبے کی گرفت میں آگیا اور آج تک ہے۔ سندھی قوم پرست اور حکمران کراچی کو الگ انتظامی کنٹرول میں دینے کو سندھ توڑنے کے مترادف سمجھتے ہیں اور چونکہ وہ سندھ کو اپنی دھرتی ماں نہیں بلکہ اب ماں کہنے لگے ہیں۔ حالانکہ یہ ماں قیام پاکستان سے پہلے برطانیہ کے انگریزوں کے کنٹرول میں تھی اس دوران 1742 میں جام علی خان نے لسبیلہ اسٹیٹ پر قبضہ کیا تو کراچی بھی ریاست لسبیلہ کے قبضے میں چلا گیا تھا گو کہ سندھ کو اس وقت بھی توڑا جاچکا تھا اور سندھ ماں کے ٹکڑے کردیے گئے تھے۔
اب اگر ہم سندھ ماں کی بات کرتے ہیں تو یہاں اس دیہی اور شہری میں تقسیم کے بعد کراچی کی مزید دیہی اور شہری تقسیم کے بعد ملیر اور کورنگی کے دو اضلاع میں غیر منصفانہ تقسیم کرکے ان کے درمیان سے دیہی علاقے اس طرح تخلیق کیے گئے اور ان علاقوں پر مشتمل ڈسٹرکٹ کونسل کراچی بنادیا گیا اس ضلع کونسل میں یونین کونسل کا ایک حلقہ 6 ہزار آبادی پر ہے جبکہ شہری علاقوں کی یونین کمیٹی (یو سی) کا حلقہ دس ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ ہے ناں ناانصافی … اب مراد علی شاہ بتائیں ان کی سندھ ماں کے کون ٹکڑے در ٹکڑے کررہا ہے؟ رہی بات کراچی کے مسائل کے سدباب کے لیے عدالت عظمیٰ اور وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر وفاقی ادارے این ڈی ایم اے اور دیگر کی پیش رفت کی تو میرا اپنا خیال ہے کہ اس معاملے میں ایسا کچھ بھی فوری نہیں ہوسکے گا جس کی خوش فہمی کراچی کے لوگوں کو ہے۔ خیال ہے کہ اس بازگشت کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ یہ نکلے گا کہ عالمی مالیاتی اداروں سے لیے جانے والے قرضے سے شروع کیے گئے کراچی کے منصوبوں میں وفاقی ادارے بطور معاون شامل ہوجائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت وفاق اداروں کو ان منصوبوں میں شامل کرنے پر راضی ہوچکی ہے۔