کے الیکٹرک کے تفصیلی آڈٹ کا حکم ۔ نیپرا متبادل بتائے ، چیف جسٹس

238

 

کراچی ( اسٹاف رپورٹر)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کے الیکٹرک کے تفصیلی آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے کہاہے کہ کے الیکٹرک کا پورا حساب لیا جائے، کتنی تاریں لگائیں، ہر قسم کا مکمل حساب لیا جائے،نیپرا کے الیکٹرک کا متبادل بتائے۔منگل کوعدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کراچی میں لوڈشیڈنگ، کرنٹ لگنے سے لوگوں کی اموات، سرکلر ریلوے، غیر قانونی بل بورڈز، تجاویزات سمیت دیگر اہم
معاملات پر سماعت کی، جہاں چیئرمین نیپرا اور کے الیکٹرک کے سی ای او مونس عبداللہ علوی سمیت دیگر حکام پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز میں کراچی میں لوڈشیڈنگ اور کرنٹ لگنے سے ہلاکتوں پر کے الیکٹرک پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ شہر میں کرنٹ لگنے سے جتنی بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں، سب کے مقدمے میں چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے الیکٹرک کا نام شامل کیا جائے اور ان کا نام ای سی ایل میں بھی ڈالا جائے جبکہ کے الیکٹرک کو شہر میں صفر لوڈ شیڈنگ کرنے کا حکم بھی دیا۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ گزشتہ رات میں کراچی آیا شاہراہ فیصل کی پوری بتیاں بند تھیں، علاقے میں اندھیرا تھا اور لوگ گھروں سے باہر بیٹھے تھے،کے الیکٹرک نے کراچی میں کچھ بھی نہیں کیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک انتظامیہ سب سے سستا اور ناقص میٹریل استعمال کر رہی ہیں اور سارا منافع باہر لے کر جا رہے ہیں، اسٹیٹ بینک کو کہیں گے کہ ان کا منافع باہر لے کر جانے نہ دے۔انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کا تفصیلی آڈٹ کروایا جائے، سی اے او کا نام ای سی ایل میں ڈالیں، پورے کراچی میں ارتھ وائر کاٹ دی ہیں، ان کے خلاف قتل کے کیس بنائیں۔سی ای او کے الیکٹرک مونس عبداللہ علوی نے عدالت کو بتایا کہ لائنز ایریا میں تو جانے سے ڈرتے ہیں، ان کے ملازمین کو بجلی کے کھمبے سے باندھا جاتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اگر کوئی پیسے نہیں دیتا تو آپ صرف اس گھر کی بجلی بند کریں، آپ کو یہ اختیار نہیں کہ آپ پورے علاقے کی بجلی بند کریں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے بجلی کمپنیوں کے ریگولیٹری ادارے نیپرا کے چیئرمین کو کہا کہ اگر کے الیکٹرک کسی بھی علاقے میں ایک منٹ بھی بجلی بند کرے تو نیپرا فوری نوٹس لے،میں ابھی کے الیکٹرک کا لائسنس معطل کرتا ہوں،کراچی پر اجارہ داری قائم نہیں کرنے دیں گے، دوسری کمپنیاں بھی ہونی چاہئیں، چیئرمین نیپرا بتائیں کہ اس کا متبادل کیا ہے، آپ لوگ کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے۔چیئرمین نیپرا نے جواب دیا کہ وہ کارروائی کرتے ہیں لیکن کے الیکٹرک نے حکم امتناعی حاصل کر رکھے ہیں، چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ سارا ریکارڈ لے کر آئیں وہ حکم امتناعی ختم کر دیتے ہیں۔ انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کی جان نکال کر عدالتوں سے حکم امتناعی لے لیتے ہیں حکومت میں ان کی لابی چلتی ہو گی عدالت میں ان کی کوئی لابی نہیں چلے گی۔چیئرمین نیپرا نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ انہوں نے کے الیکٹرک کو 17,18 شوکاز نوٹس جاری کرنے سمیت ڈیڑھ کروڑ (15 ملین) کا جرمانہ بھی عاید کیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ ’کے الیکٹرک پر کروڑوں کا نہیں اربوں کا جرمانہ عاید کریں کیونکہ یہ لوگ تو کھربوں کما رہے ہیں۔سی ای او کے الیکٹرک نے بات کرنے کی کوشش کی جس پر چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روک دیا۔ جسٹس گلزاراحمدکا کہنا تھا کہ یہاں تقریر مت کریں کام کریں ،انہوں نے پورے شہر پر اجاراداری قائم کررکھی ہے،یہ لوگوں کی جان نکال کر عدالتوں سے حکم امتناعی لے لیتے ہیں،حکومت میں ان کی لابی چلتی ہوگی عدالت میں ان کی کوئی لابی نہیں چلے گی۔کے الیکٹرک کے سی ای او نے کہاکہ کراچی سے جتنا پیسہ کماتے ہیں لگا دیتے ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ’جتنی سرمایہ کاری کی ہے اس سے زیادہ نقصان کیا ہے ساری تانبے کی تاریں اتار کر لے گئے ہیں، کے الیکٹرک والے پوری دنیا میں ڈیفالٹر ہیں، لندن میں ان کو جیل میں بند کر دیا تھا۔کے الیکٹرک کے سی ای او مونس عبداللہ علوی نے چیف جسٹس کو بتایا کہ وہ خود بھی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ان کی پیدائش اسی شہر میں ہوئی ہے۔ جس پر چیف جسٹس ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں پیدا ہوئے اور کراچی والوں کی زندگیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ ایک بات اچھی طرح سن لیں کراچی کی بجلی بند نہیں کریں گے، بجلی بند کرنی ہے تو اپنے دفتر کی کریں۔ نیپرا کو ہدایت کی کہ کراچی والوں کی بجلی بند کرنے پر جتنا جرمانہ لگتا ہے لگائیں۔چیف جسٹس نے سی ای او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے یہ بیان دیا کہ 2023ء میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی، آپ کو یہ بیان دیتے ہوئے شرم نہیں آئی، آپ کو اس لیے نہیں لایا گیا کہ یہاں لوڈ شیڈنگ کریں، جتنی بجلی درکار ہے خریدیں، اگر آپ کو نقصان ہو رہا ہے تو چلے جائیں، ایک طرف کہہ رہے ہیں نقصان ہو رہا ہے دوسری طرف ابھی تک یہاں بیٹھے ہیں۔سی ای او کے الیکٹرک نے عدالت کو بتایا کہ ان کی وفاقی حکومت سے بات ہو رہی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ وفاقی حکومت کو چھوڑ دیں بطور کمپنی آپ خود بتائیں، گزشتہ 10 برس سے جو کچھ آپ نے کیا ہے ہمیں معلوم ہے۔چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پتا ہے جب بجلی بند ہوتی ہی چھوٹے چھوٹے گھروں میں کیا حال ہوتا ہے؟ عورتیں دہائی دیتی ہیں آپ کو ان کا احساس ہے، کراچی تجارتی شہر ہے یہاں تو بالکل بھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہونی چاہیے۔چیف جسٹس نے سی ای او کے الیکٹرک سے استفسار کیا کہ بجلی کی بندش کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ سی ای او کا کہنا تھا کہ وہ لوڈ شیڈنگ نہیں کرتے سپلائی کے اندر شارٹ فال ہے، 900 میگا واٹ لگا رہے ہیں جبکہ ایک 700 میگاواٹ کا منصوبہ لگا رہے تھے اگر حکومت نہ روکتی تو اب شہر میں لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی۔ سماعت کے دوران چیئرمین نیپرا کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کو تو رول ماڈل کی طرح ہونا چاہیے، کے الیکٹرک کا ایس جی سی سے کوئی معاہدہ نہیں، آئل اسٹوریج میں کوئی تیل کا اسٹوریج نہیں ہوتا، ہر فردیہ کہتا ہے کہ کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لیں، میں خود آیا تاکہ عدالت کو حقیقت بتا سکوں۔جس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے ادارے کے بھی زمینی حقائق بتائیں وہاں بھی حالات خراب ہیں، چیئرمین نیپرا نے انہیں آگاہ کیا کہ نئے قوانین بن گئے ہیں اب کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کرنے کا بھی اختیار مل گیا ہے۔سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ ہم بجلی بنانے کے دوسرے طریقوں پر کام کیوں نہیں کرتے؟ گاؤں دیہاتوں میں لوگوں نے سولر پلیٹیں لگا دی ہیں، لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں، سمندر زمین کی گرمی سے بجلی پیدا ہوتی ہے، ابھی تک لوگ کوئلہ نکال کر بجلی میں جلا دیتے ہیں، ہماری انڈسٹری بیٹھ گئی ہے بجلی نہیں ہے۔سی ای او اکے الیکٹرک کا کہنا تھا کہ ہم نے 73 فیصد علاقے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا بات کرتے ہیں میرے علاقے میں روز لائٹ جاتی ہے ،جہاں میں رہتا ہوں وہاں روزانہ 5 گھنٹے بجلی جاتی ہے،میرے پاس تو موبائل پر تین چار دفعہ بجلی بند ہونے کا پیغام آجاتا ہے، جس پر سی ای او نے کہا کہ اچھا سر میں ابھی چیک کرواتا ہوں۔سی ای او کے جواب پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔ ایڈوکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہر چیز مفلوج کردی ہے، تفصیلی تفتیشی رپورٹس موجود ہیں، کمپنی شنگھائی کمپنی کو فروخت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ان کے سامنے وفاقی اور صوبائی حکومت بے بس ہے کچھ تو جادو ہے ان کے پاس۔ جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کچھ انڈر دی ٹیبل ہوتا ہوگا پھر۔چیف جسٹس نے سی ای او سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ غریبوں کو 20,20 ہزار بجلی کا بل بھیجیں گے؟ جس قسم کی سروس ہو گی ویسا ہی رسپانس ہو گا، ریونیو اس لیے جمع نہیں ہوتا کیونکہ لوگوں کو اس کا فائدہ نہیں ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ کورونا کی وجہ سے بازار بند، کاروبار بند پھر بھی اتنی بجلی جا رہی تھی؟ لوگوں کے پاس بجلی ہے نہ پانی ، عجیب حال ہے، جب گھر میں سکون نہیں ہو گا تو کیسے لوگ خود کو قرنطینہ کریں گے؟اس دوران چیئرمین نیپرا نے بتایا کہ ہم نے نئی کمپنیوں کو بجلی پیدا کرنے کی اجازت دی تو کے الیکٹرک نے عدالت سے حکم امتناع لے لیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے بھارت کے معاملات کو پڑھا ہے، وہاں پورا نظام ہی تبدیل کر دیا گیا ہے ،وفاق بھی ان کو بجلی دیتا ہے، ریاستیں خود بھی بجلی پیدا کرتیں ہیں۔ عدالت نے سوال کیا کہ کراچی میں کرنٹ لگنے سے ہونے والی ہلاکتوں کا ذمے دار کون ہے، جس پر سی ای او کے الیکٹرک نے کہا کہ کے الیکٹرک ان ہلاکتوں کا ذمے دار نہیں، ان کے وکیل نے کہا کہ یہ ہلاکتیں گھروں میں ہوئی ہیں، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ شہر میں کرنٹ لگنے سے سڑکوں پر بھی اموات ہوئی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام وضاحتیں غلط ہیں بجلی کیا سڑکوں پر چلتی ہے، اب اگر کہیں پر بھی ہلاکت کا واقعہ ہوا تو مقدمہ درج ہو گا۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کے الیکٹرک سے جمعرات تک مکمل ٹائم لائن طلب کرلی، اس کے ساتھ ہی 13 اگست سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے سے متعلق بھی پالیسی طلب کرلی۔عدالت نے حکم دیا کہ بجلی پیدا کرنے کی استعداد، موجودہ پیداوار اور طلب کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں۔عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو کے الیکٹرک سے متعلق ٹربیونلز فعال کرنے کے لیے اقدامات کی ہدایت کی ۔کیس کی سماعت آج پھر ہوگی۔