چیف جسٹس تجھے سلام

338

تحریر -:مسرور احمد مسرور
احتساب احتساب کی گردان سن سن کر لوگوں کے کان پک گئے ہیںکیسا احتساب کہاں کا احتساب ایسا لگتا ہے کوئی مذاق کیا جارہا ہو یا وقت گزاری کا کوئی سلسلہ جاری ہے جن لوگوں کااحتساب ہونا ہے وہ ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزار رہے ہیں انہیں کسی قسم کے مقدمات کی کوئی فکر نہیں آرام سے ضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں ہر طرح کے استثنا انہیں مل جاتے ہیں لوٹی ہوئی دولت کہاں ہے کس کے پاس ہے کب اس ملک میں آئے گی کسی کو کچھ پتہ نہیں بس یہ سبکو پتہ ہے کہ احتساب ہورہا ہے نتیجہ کوئی سامنے نہیں آرہا شاباش ہے ہمارے محترم قابل قدر چیف جسٹس صاحب کو جنہوں نے احتساب کے نام پرہونے والی کارگزاری جوکچھوے کی رفتار سے جاری ہے کا نوٹس لیا انہوں نے کہا کہ اگر ایسا احتساب ہونا ہے تو احتساب عدالتیں بند کر دیتے ہیں بہر حال انہوں نے احتساب کے عمل میں تیزی لانے کی غرض سے احتساب عدالتوں کی تعداد ۲۰ سے بڑھا کر ۱۲۰ کردی جنکے لیئے ججزکی تعیناتی کا حکم بھی جاری کیا ۲۰ احتساب عدالتوں میں سے ۵ عدالتوں کے غیر فعال ہونے پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا چیف جسٹس صاحب کا یہ انقلابی اقدام لوگوں کے دل کی آواز ہے لوگ چاہتے ہیں کہ احتساب کا عمل تیزی سے مکمل ہو اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوکر عوام کے سامنے احتساب کی اصل حقیقت سامنے آجائے کتنے تعجب بات ہے کہ 1226ریفرنسزکے فیصلے نہیں ہوپار ہے جسمیں ۲ ہزار ارب روپے کی رقم پھنسی ہوئی ہے چیف جسٹس صاحب کا یہ فیصلہ ہر لحاظ سے قابل صد تحسین ہے جس پر قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے۔ذکر فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر کی ہو تو ہم چیف جسٹس محترم گلزار احمد صاحب کی خدمت اقدس میں بینک پنشنروں کے ان مسائل کی جانب مبذول کروانا چاہیں گے جن کی وجہ سے وہ نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن پنشنروں کے ناتو اں طبقے کی فریاد سننے کو کوئی تیار نہیں ۔سال ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے جب جناب ثاقب نثار چیف جسٹس کے عہدے پر متمکن تھے تو انہوں نے پنشنروں کے مسائل کے حوالے سے ازخود نوٹس لیتے ہوئے پنشنرز کے زیرالتوامقدمات کی تفصیلات طلب کی تھیں انہوں نے یہ ریمارکس بھی دیئے تھے کہ پیسہ انسان کی ضرورت ہے اور پنشن اتنی تو ہونی چاہئے کہ جس سے زندگی بسر ہوسکے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بینکوں، کارپوریشنوں ،فنانس آئی ٹی اور دیگر وزارتوں کے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی عدم ادائیگوں اور دیگر مسائل کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی حکومت نے ہر ادارے میں پنشنروں کے مسائل کے حل کے لیئے ویلفیر آفیسرز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا پنشنرزکل بھی پریشان تھے اور آج بھی پنشنروں کے حق میں سپریم کورٹ ہائی کورٹ سول کورٹ کی جانب سے فیصلے دیئے جانے کے بعد پنشروں کو ان کا حق نہیں مل رہا ہمارے عدالتی نظام میں کسی نہ کسی وجہ سے کاروائی ملتوی ہوتی نظر آئے گی کبھی ایک وکیل نہیں ہوتا تو کبھی دوسرا کسی اور عدالت میں مصروف ہوتاہے کبھی فریقین میں سے کوئی ایک پیش نہیں ہوتاتو کبھی گواہ غیر حاضر ہوجاتا ہے مختلف وجوہ کی بنا پر عدالتی کاروائی ملتوی ہوتی ہے کچھ فریقین وکیل کے ساتھ ملکر کوئی نہ کوئی جواز پیش کر کے کاروائی کو آگے بڑھانے کی تک ودو میں مصروف رہتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالتی نظام میں تاخیری حربوں کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کے خلاف قانون بنایا جائے یہ کیا مذاق ہے کہ عدالتوں کے فاضل جج صاحبان فیصلہ سنادیتے ہیں تو ان فیصلوں کے خلاف اپیل۔ ریویو اپیل اعترا ض کی درخواست وغیرہ جیسے تاخیری حربوں سے پنشنروں کو ان کے حقوق سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ہمارے سابق چیف جسٹس فرماتے ہیں کہ پیسہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور پنشن اتنی تو ہوکہ آرام سے زندگی بسر ہوسکے لیکن بینک والے چند سو روپے پنشن دیکر سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا احسان کردیا پھر وہی سابق چیف جسٹس سبکو آٹھ ہزار روپے پنشن دینے کا فیصلہ فرماتے ہیں فروری ۲۰۱۸؁ء میں لیکن بینک والے فیصلے پر عمل کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اعلیٰ عدالت کے سامنے توہین عدالت کے مرتکب ہوتے ہیں اور دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا فیصلے پر عملدر آمد کرنے کے بجائے عدالت عدالت کھیل رہے ہیں اور پھر کمال کی بات تو یہ ہے کہ عدالت کی کوئی بات بھی نہیں مان رہے یہ سنگدل لوگ غریب پنشنروں کے ساتھ ظلم تو کررہے ہیں لیکن اس ظلم کا بدلہ یہاں بھی ملے گا اور وہاں تو ملے گا ہی ملے گا۔ہم محترم چیف جسٹس صاحب جناب گلزار احمد صاحب سے بصداحترام یہ اپیل کرتے ہیں کہ پنشنروں کے زیر التوا مقدمات کو آخری نتیجے تک پہنچائیں تاکہ انہیں اپنی زندگی میں جو ملنا ہے مل جائے کیونکہ پنشنروں کی بڑی تعداداللہ کو پیاری ہوچکی باقی بھی جانے کو تیار بیٹھے ہیں عدالتوں نے پنشنروں کے حق میں فیصلے دے دیئے ہیں لیکن بینک تاخیری حربوں کے ذریعے فیصلوں پر عملدرآمد سے گریز کررہاہے۔