پانی کے منصوبے کے فور کی اراضی نجی بجلی گھروں کو الاٹ

380

پانی کا منصوبہ “کے فور ” کی اراضی نجی بجلی گھروں کو الاٹ ۔ دو سال بعد بھی دوبارہ کام شروع نہیں کیا جاسکا۔

پروجیکٹ کی لاگت 25 ارب سے ایک سو 50 ارب ہوچکی مگر کام شروع کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ۔ 

کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) حکومت سندھ کراچی کو 260 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کے منصوبے ” کے فور ” پر مختلف وجوہات یا بہانوں سے کام بند کرکے دو سال گزار چکی ہے اس کے باوجود آئندہ چھ ماہ میں بھی دوبارہ یہ پروجیکٹ شروع کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ خیال رہے کہ  25 ارب 50 کروڑ روپے کی لاگت کے  اس عظیم تر منصوبے پر کام کا آغاز 10 جون 2015 کو وزیراعلٰی سندھ نے کیا تھا بعدازاں وزیراعظم میاں نواز شریف نے جون 2016 میں اسی منصوبے کے کام کا افتتاح کیا تھا ۔یہ منصوبہ شیڈول وقت کے مطابق دسمبر 2018 مکمل ہوجانا چاہیے تھا ۔تاہم جنوری 2018 میں ہی منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر انجینئر سلیم صدیقی کو ہٹاکر ان کی جگہ ایک نان انجینیئر پروجیکٹ ڈائریکٹر اسد ضامن کو پی ڈی مقرر کیا گیا ۔ ان کے پی ڈی مقرر ہوتے ہی پورے پروجیکٹ پر کام پہلے سست روی کا شکار ہوا بعدازاں بند کردیا گیا اس پروجیکٹ مین تعینات تمام عملے کو واپس واٹر بورڈ کے مختلف شعبوں میں بھیج دیا گیا لیکن نان انجینیر پی ڈی ہنوز اسی عہدے پر تنخواہ و اضافی مراعات لے رہے ہیں ۔ چونکہ مذکورہ افسر ایک ریٹائرڈ برگیڈیر اور سندھ گورنمنٹ کے ریٹائرڈ افسر کے بیٹے ہیں اس لیے انہیں محکمہ فنانس میں ایک ڈائریکٹر کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا ۔ لیکن کے فور کے اہم ترین پروجیکٹ میں کوئی پیش رفت گزشتہ دو سال سے نہیں ہوسکی ۔ اس پروجیکٹ کے پرانے ڈیزائن پر اعتراض کرکے پورے پروجیکٹ کا ازسر نو جائزہ لینے کے لیے اسی کنسلٹنٹ فرم نیسپاک کو بغیر ٹینڈرز کے ٹھیکہ دے دیا گیا جس نے پہلی بار ڈیزائن کے لیے کنسلٹنسی کی تھی ۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پروجیکٹ کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ وزیراعلٰی مراد علی شاہ کو پیش کیے جانے کے نو ماہ بعد بھی پروجیکٹ پر کام کا آغاز نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ کے فور کے راستے میں سندھ گورنمنٹ نے نجی پاور کمپنیوں کو پن بجلی بنانے کے لیے اراضی الاٹ کردی ۔ زرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری امور اور پروجیکٹ پر نظر رکھنے والے ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کے فور کے پروجیکٹ میں کی جانے والی بے قاعدگی پر گزشتہ چیف سیکریٹری سندھ کو درخواست بھی دی تھی مگر اس پر تاحال کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل میں بلاجواز تاخیر کیے جانے کی وجہ منصوبے کی کل لاگت میں مبینہ طور پر اضافہ بھی کرنا ہے جو اب بھی ایک اندازے کے مطابق 25 ارب 50 کروڑ سے بڑھ کر ایک سو پچاس ارب تک ہوچکی ہے ۔ اس منصوبے سمیت تمام دیگر پروجیکٹ کے لیے وفاق پی سی ون میں رکھی گئی لاگت  میں اضافے پر اضافی رقم دینے سے انکار کرچکی ہے جبکہ سندھ گورنمنٹ مالی بحران کا شکار ہے اس لیے اس منصوبے میں دلچسپی ہی نہیں رہی ہے ۔کراچی کے شہریوں کا خیال ہے کہ تین مراحل پر مشتمل کل 650 ملین گیلن یومیہ کے اس منصوبے کے پہلے فیز کو مکمل نہ کرنے پر سندھ گورنمنٹ کی عدم دلچسپی کی وجہ صرف یہی نظر آتی ہے کہ وہ کراچی کے لوگوں کی پانی کی ضروریات بھی پوری نہیں کرنا چاہتی ۔ #

Sent from my Samsung Galaxy smartphone.