احتساب عدالت نے پارک لین ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری پر 4 اگست کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق صدرآصف زرداری کےخلاف پارک لین ریفرنس کی سماعت تو آصف زرداری کےوکیل فاروق ایچ نائیک نےکیس میں نیب کےدائرہ اختیارپردلائل دیے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئین کےآرٹیکل4کےمطابق آصف زرداری کیخلاف یہ کیس نہیں چلایاجاسکتا، بینک قرض واپسی کیلیےریفرنس دائرہونےسےپہلےکراچی میں کیس کرچکاہے، بینک نےقانون کےمطابق کیس کررکھاہےتونیب کادائرہ اختیارنہیں بنتا۔
جج اعظم خان نے پوچھا کہ کیابینک نےنیب انکوائری شروع ہونےسےپہلےکیس کیاتھا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ بینک نےانکوائری شروع ہونےکےبعدکیس دائرکیاہے۔
فاروق نائیک نے موقف اپنایا کہ یہ بھی دیکھ لیتے ہیں قانون قرض سے متعلق کیا کہتا ہے ، اس کیس میں بینک شکایت کنندہ ہی نہیں ہےنیب کارروائی کیسے کررہاہے؟ ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں اسٹیٹ بینک گورنرکومقروض کو نوٹس دینا ہوتا ہے، اسٹیٹ بینک گورنرکی جانب سے کوئی نوٹس نہیں جاری کیا گیا۔
عدالت نے سوال کیا کہ قرض کمپنی لےرہی تھی توجائیدادپارک لین کی گروی کیوں رکھی جارہی تھی؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ دونوں کمپنیوں کا جوائنٹ وینچر تھا کہ پارک لین کےپلاٹ پرعمارت بنائی جائیگی،اس طرح بینیفشری تو پارک لین کمپنی ہی ہوئی ناں، پلاٹ اس کا بن رہا ہے۔
جج نے پوچھا کہ کمپنی کوبھی قرض لے کرعمارت بنانا تھی تو پارک لین نے خود قرض کیوں نہیں لیا؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگر دونوں کمپنیوں نے ایسا کرلیا ہے تو اس معاملے میں جرم کیا ہوا؟ آصف زرداری کو ملزم بنایا جارہا ہے، نیب “پِک اینڈ چُوز“ کرتا رہا ہے، انورمجید،عبدالغنی مجید سمیت تمام پرائیوٹ لوگوں کو ملزم بنا دیا گیا، کیوں سرکاری بینک کا ایک بھی بندہ ملزم نہیں؟ کیا یہ ناانصافی نہیں؟
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سابق صدر پر 4 اگست کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے نامزد ملزمان کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دے دیا۔