یہ فاصلے … یہ قربتیں

1793

صاحب! حکم ہوا کہ منہ پر ڈھاٹا باندھ لیجیے۔ منہ پر ڈھاٹا باندھ لیا گیا۔ حکم ملا کہ ہاتھوں پر دستانے چڑھا لیجیے۔ ہاتھوں پر دستانے چڑھا لیے گئے۔ حکم کیا گیا کہ کسی دروازے کے دستے کو دستِ مبارک سے نہ چھوئیے، کُہنی استعمال کیجیے۔ استعمال کر کر کے کُہنیاں سُجا لی گئیں۔ آرڈر ملا کہ سماجی فاصلے پر رہیے۔ سو، فاصلے پر ہوگئے۔ ہدایت دی گئی کہ ہاتھ کم ازکم چھے سیکنڈ تک مسلسل اور صابن استعمال کرتے ہوئے دھوتے رہیے۔ تعمیل ہوئی، ہم بات بات پر ہاتھ دھویا کیے۔ تاکید کی گئی کہ ہر وقت منہ دھو رکھیے۔ پس گھڑی گھڑی منہ ہی دھوتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ آرڈر بھی جاری ہوگیا جو نصف صدی قبل ستار سید نے ان الفاظ میں جاری کیا تھا:
اپنے اپنے گھروں میں مقفل رہو، خامشی اوڑھ لو
جب تلک رُت بدلنے کا مژدہ پرندے سناتے نہیں
سو، لوگ گھروں میں کیا مقفل ہوئے، سب ہی کچھ مقفل ہو گیا۔ دفاتر مقفل ہوگئے، کارخانے مقفل ہو گئے، تعلیمی ادارے مقفل ہو گئے، بازار مقفل ہو گئے، ذرائع نقل و حمل مقفل ہو گئے۔ غرض اس عالم گیر وبا کے پھیلنے کی خبر سننے کے بعد جو ہوا تو بس یہ ہوا بقولِ سراج کہ:
خبرِ تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
چلی سمت غیب سے کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہو، سو ہری رہی
یعنی سب کچھ مقفل ہو گیا، بس دل مقفل نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ عقل بھی مقفل ہو گئی… پھر وہی بقولِ سراج اورنگ آبادی:
کہ کتاب عقل کی، طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی
دنیا بھر کے عاقل گُنگ ہو کر رہ گئے۔ وہ لوگ بھی ساکت و صامت ہو گئے: ’’جو کہتے ہیں بڑے لوگوں کی مت ماری نہیں جاتی‘‘۔
ایک غیر مرئی جرثومے نے وہ کام کر دکھایا جو شاید تیسری جنگِ عظیم بھی نہ کر دکھاتی۔ ذرا اموات و وفات کے عالمی اعداد و شمار کا رجسٹر تو ملاحظہ فرمائیے۔ پہلے دہشت گردی کے نام پر کن کن ممالک کے لوگ بھاری تعداد میں مارے جا رہے تھے اور اب ’’کورونا گردی‘‘ کے کھاتے میں کن کن ولایتوں کے لوگ اس سے بھی زیادہ بڑی تعداد میں اور جوق در جوق مارے جا رہے ہیں۔ ارے اے مردِ عاقل!
نہ جا اُس کے تحمل پر کہ بے ڈھب ہے گرفت اُس کی
ڈر اُس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اُس کا
اِس نئی رُت کی حکایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک روایت یاد آگئی۔ روایت مستند تو نہیں۔ لیکن اگر ’’کلیۂ رئیسانی‘‘ کا اطلاق کیا جائے تو ’’روایت، روایت ہوتی ہے، مستند ہو یا غیر مستند‘‘۔ سو روایت یوں ہے کہ سیدنا نوحؑ کی کشتی عالمی سیلاب کے بعد (، جس کے نتیجے میں کشتی میں موجود مخلوق کے سوا پوری دنیا ختم ہو گئی تھی) ساتویں مہینے کی سترہویں تاریخ کو کوہِ اراراط کی چوٹی پر جا کر ٹِک گئی۔ پانی دسویں مہینے تک برابر گھٹتا رہا۔ دسویں مہینے کی پہلی تاریخ کو پہاڑوں کی چوٹیاں نظر آئیں۔ اس کے چالیس دن کے بعد سیدنا نوحؑ نے وہ کھڑکی کھولی جو آپؑ نے اپنی کشتی یا بحری جہاز میں بنائی تھی۔ نیچے ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ پھر آپؑ نے ایک ایک ہفتے کے وقفے سے تین بار ایک فاختہ کو اُڑایا اور حکم فرمایا کہ وہ خبر لائے کہ زمین پر پانی خشک ہوا یا نہیں؟ تیسری مرتبہ جب فاختہ واپس آئی تو زیتون کی ایک تازہ پتی اُس کی چونچ میں تھی۔ تب سے فاختہ کی چونچ میں دبی ہوئی شاخِ زیتون امن اور سکون کی علامت بن گئی۔
اس تازہ وبا کی ڈگمگاتی کشتی کو تیرتے ہوئے تادمِ تحریر نو ماہ گزر چکے ہیں۔ دسواں مہینا شروع ہونے کو ہے۔ اب دیکھیے کہ رُت بدلنے کا مژدہ پرندے کب سناتے ہیں۔ مگر اب کے رُت بدلی تو بہت کچھ بدل چکا ہوگا۔ کورونا کے بعد کی دنیا ایک نئی دنیا ہوگی۔ ویسے بھی اب پُرانی دنیا کی کون سی رونقیں باقی رہ گئی ہیں؟
دنیا بھر میں سارا زور ’’سماجی فاصلے‘‘ پیدا کرنے اور ان فاصلوں کو قائم رکھنے پر ہے۔ بینکوں، بازار کی بڑی بڑی دُکانوں اور بڑے بڑے طبی اداروں میں جو غرض مند پہنچتے ہیں ان کے مابین سماجی فاصلہ پیدا کرنے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، خواہ وہ ایک ہی گھر کے افراد کیوں نہ ہوں۔ مساجد میں صف آرا ہونے والے بندگانِ خدا کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر کھڑے نہ ہوں۔ پس اب مسلمانوں میں مسجد کے اندر بھی ایک دوسرے سے دُوری پیدا ہوگئی ہے۔ چھے نہیں تو ایک دوسرے سے کم ازکم تین فٹ کے فاصلے پر ضرور کھڑے ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بصریہ (Video Clip) کسی نے بھیجا جس میں پانچ افراد لبِ سڑک کھڑے نماز باجماعت پڑھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے ایک صاحب امام ہیں، باقی چار مقتدی۔ چاروں مقتدی امام صاحب کے پیچھے، ایک دوسرے سے تقریباً پانچ پانچ فٹ کے فاصلے پر، ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ اس صف کے عین پیچھے ایک کار کھڑی ہے۔ بصریہ بھیجنے والے نے مطلع کیا ہے کہ یہ پانچوں یہاںتک اسی کار میں بیٹھ کر آئے تھے۔ یقینا، ڈرائیور سمیت دو افراد آگے بیٹھے ہوں گے اور تین افراد ٹھنس ٹھنسا کر پیچھے۔ مگر انہوں نے باہمی ’’سماجی فاصلہ‘‘ صرف بوقتِ نماز قائم کیا۔
ایک طرف تو یہ حال اور یہ صورتِ احوال ہے۔ جب کہ دیگر احوال یہ ہیں کہ سماج میں کھلے کھلے پھرنے پر پابندی لگا دینے اور لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں مقفل کر دینے کے نتیجے میں عالمی پیمانے پر ’’سماجی فاصلے‘‘ گھٹ گئے ہیں۔ ’’سماجی ذرائع ابلاغ‘‘ کی بن آئی ہے۔ اپنے اپنے گھروں میں مقفل رہنے کے باعث ہمسائے کا ہمسائے سے ’’سماجی فاصلہ‘‘ بڑھ گیا ہو تو بڑھ گیا ہو، مگر کیلی فورنیا میں بیٹھے ہوئے اعزہ و احباب کی کراچی میں لیٹے ہوئے اعزہ و احباب سے ’’سماجی قربت‘‘ بڑھ گئی ہے۔ مدتوںکے ٹوٹے رابطے جُڑ رہے ہیں۔ بھولے بسرے دوست ایک دوسرے کو ’’بصری پُکار‘‘ (Video Call) سے پُکار پُکار کر جگری قربت جتا رہے ہیں۔ برقی ذریعۂ تعلیم اختیار کرلینے سے استادوں اور شاگردوں میں ذاتی قربت بڑھ گئی ہے۔ جب چاہو اور جس وقت چاہو اُستاد کو تحریری یا سمعی یا بصری پیغام بھیج کر جو چاہو پوچھ لو۔ مریضوں اور طبیبوں میں بھی ایسی ہی ’’سماجی قربت‘‘ ہو گئی ہے۔ جب چاہو اور جس وقت چاہو ’’ڈاک صاب‘‘ کو تحریری یا سمعی یا بصری پیغام بھیج کر جو چاہو پوچھ لو۔ سوائے سرجری کے سب کچھ آن لائن ہو رہا ہے۔ منہ کھلوا کر حلق کے اندر تک جھانکا جا سکتا ہے۔
برقی رابطے پر کئی مشاعرے منعقد ہو چکے ہیں۔ ان میں وہ شعرا بھی شریک ہوئے جن کو دوسرے شہروں یا دوسرے ممالک سے بلا کر ایک ہی مشاعرے میں پڑھوانے پر زرِ کثیر خرچ ہوتا تھا۔ رمضان بھر علمائے کرام نے گھر بیٹھے، گھر بیٹھوں کو درسِ قرآن دیا۔
اب گھڑی گھڑی گھڑیال کی ٹن ٹن کی طرح موبائل بولتا رہتا ہے اور غافلوں کو تازہ ترین خبروں کی منادی دیتا رہتا ہے۔ لوگ اب ایک دوسرے سے زیادہ باخبر رہتے ہیں۔ پوری دنیا کی ’’سماجی قربت‘‘ بڑھ گئی ہے۔
وہ شاعر جو اپنے حجرے، اپنے غم خانے میں اُکڑوں بیٹھا، لالا موجی رام موجیؔ بنا، اپنے دل کو یہ طفل تسلیاں دیتا رہتا تھا کہ:
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
اب وہ اپنے ڈرائنگ روم کے صوفے پر گردن اکڑائے بیٹھا، اپنے ہاتھوں میں تھامے اسمارٹ فون کو رو برو کیے، اُس کے اسکرین کے آئینے میں متحرک تصویرِ یار سے ہم کلام ہو رہا ہوتا ہے اور باچھیں کھلی پڑتی ہیں کہ …
وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
آں جہانی لالا موجی رام موجیؔ یہ منظر دیکھ لیں تو دل مسوس کر رہ جائیں اور کفِ افسوس ملتے ہوئے صوفی تبسم مرحوم کے گلے لگ جائیں کہ …’’صاحب! آپ جیتے میں ہارا‘‘…
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ