اہم شخصیات کی جدائی

944

دو ہفتوں میں اہم شخصیات کی جدائی پر مضمون شائع ہوا تو ایک قاری کا ایس ایم ایس ملا جس میں مضمون کی تعریف کے ساتھ یہ بھی خواہش ظاہر کی گئی تھی کہ جن دو مرحوم ارکان کا ذکر کیا ان کے بارے میں ضرور لکھیے گا انتظار رہے گا۔ جس وقت میں پہلا مضمون لکھ رہا تھا تو ایک اہم شخصیت کو بھول گیا تھا جن کا ان دنوں میں انتقال ہو گیا، نسیم صدیقی صاحب کی طرح ان کا تعلق بھی شعبہ تعلیم و تدریس سے تھا اور وہ ہیں جناب انوار احمد زئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انوار احمد زئی ایک علمی اور ادبی شخصیت تھے۔ وہ اپنے پیشے میں وسیع تجربہ رکھتے تھے ان کو ماہر تعلیم بھی کہا جاسکتا ہے وہ ڈاریکٹر ایجوکیشن کے منصب سے ریٹائر ہونے کے بعد ایک پرائیویٹ ایجوکیشن بورڈ کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے، انوار احمد زئی سادہ طبیعت کے ملنسار اور خوش اخلاق انسان تھے۔ گلی محلے کے چھوٹے اسکولوں میں بھی مہمان خصوصی کی حیثیت چلے جایا کرتے وہ شعر شاعری کا ذوق بھی رکھتے تھے اور ادبی محفلوں میں بھی شریک ہوتے تھے۔ انوار صاحب کی شخصیت اس نرس کی مانند تھی جس کے بارے میں ہر مریض یہ سمجھتا تھا کہ یہ میرا ہی سب سے زیادہ خیال رکھتی ہے۔ انوار احمدزئی کو ایک طرف ایم کیو ایم والے اپنا آدمی سمجھتے تھے تو دوسری طرف پی پی پی والے اپنا سمجھتے، دینی ذوق رکھنے کی وجہ سے دینی جماعتوں کے رہنمائوں سے بھی ان کے ذاتی تعلقات بہت مضبوط تھے۔ 1983 سے 1987 کے دوران جب میں بلدیہ میں کونسلر تھا اس وقت یہ عائشہ منزل کے ایجوکیشن دفتر میں بیٹھتے تھے وہیں سے ہماری ان کی دوستی کا آغاز ہوا تھا ان دنوں یہ ایک سرکاری وفد کو لے کر امریکا کے نظام تعلیم کے مطالعاتی دورے پر امریکا کے دورے پر گئے تھے وفد کی سربراہی یہ خود کررہے تھے۔ اس دورے کے بعد روزنامہ جنگ کے مڈویک میں ان کے دور ے کی روداد قسط وار شائع ہوئی تھی جو انتہائی دلچسپ تھی اس سے امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کے تعلیمی نظام کو سمجھنے کا موقع ملا۔ اسے اگر کتابی شکل دی جائے تو یہ عوام کے لیے ایک اچھی مفید اور معلوماتی کتاب ہو گی۔ ہماری دعا ہے اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین
دوسری اہم شخصیت جامعہ بنوری کے مفتی نعیم جو دل کا دورہ پڑنے کے بعد سنبھل نہ سکے وہ پھیپھڑے اور سانس کے علاوہ پہلے ہی سے دل کے مریض تھے، اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ کہتے ہے عالِم کی موت عالَم کی موت ہوتی ہے کسی عالم کا اُٹھ جانا واقعتا ایک دنیا کی موت ہے، ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کے بیٹوں کو باپ کی طرح عالم دین بنائے اور مفتی نعیم کی مغفرت فرمائے آمین۔
پچھلے مضمون میں جن دو ارکان جماعت کا ذکر کیا گیا اس میں سے ایک اسلام جعفری صاحب عزیز آباد میں رہتے تھے جماعت کے کارکن تھے اور جامع مسجد الفلاح کی ٹرسٹی تھے۔ ایک زمانے میں اسلام جعفری لیاقت آباد بلاک پانچ میں رہتے تھے اور اس حلقے کے ناظم تھے ان کے بھائی اکرام جعفری شریعت کورٹ کے جج بھی رہ چکے ہیں۔ لیاقت آباد سے جانے کے بعد ان کے بھتیجے اقتدار جعفری ان کی جگہ اس حلقے کے ناظم بنائے گئے تھے۔ اسلام جعفری کی ایک خاص بات کا ذکر کرنا چاہوں گا جس میں ہم تمام کارکنوں کے لیے ایک رہنمائی ہے یہ مجھے اکثر بلاک نمبر چھ کی سڑک جو 420ہوٹل سے فردوس شاپنگ سینٹر کے اسٹاپ تک جاتی ہے وہاں کسی دکان پر بیٹھے نظر آتے، زیادہ تر مشتاق ڈرائی کلینر کی دکان پر نظر آتے، مشتاق صاحب جماعت کے کارکن تھے۔ اسلام جعفری نے مجھے بتایا کہ میں اپنے آفس ٹائم سے ایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلتا ہوں اور کبھی 6نمبر والی روڈ سے اور کبھی بلک5نمبر والی روڈ سے جو طیبہ مسجد سے پٹرول پمپ تک جاتی ہے اسٹاپ پہنچتا ہوں وجہ اس کی انہوں نے یہ بتائی کہ میں راستے میں ہر دکاندار سے سلام دعا کرتے ہوئے اور کہیں کہیں رک کر لوگوں ہاتھ بھی ملالیتا ہوں پھر مشتاق صاحب کی دکان پر بیٹھتا ہوں تو یہاں پر کچھ لوگ ملاقات کے لیے آجاتے یہ ساری میری دعوتی ملاقاتیں ہوتی ہیں اس لیے کہ شام کا کوئی بھروسا نہیں مجھے اس طرح کی دعوتی ملاقاتوں کے لیے وقت ملے گا بھی یا نہیں لیکن جب موقع ملتا ہے تو شام کو بھی میں اس طرح کی ملاقاتیں کرتا ہوں یہ ان کا ایک ایسا کام ہے جسے ہم سب کو جو یہ رونا روتے ہیں کہ ملاقاتوں کے وقت نہیں ملتا ان سب کے لیے اس میں ایک رہنمائی ہے۔ ہمارے سابقہ امیر ضلع وسطی حفیظ اللہ صاحب کہتے تھے کہ جب ہم دفتر سے واپس آ ئیں تو گھر جانے سے پہلے دو چار دعوتی ملاقاتیں کرلیں پتا نہیں گھر جانے کے بعد کسی مسئلے میں الجھ گئے تو یہ کام رہ جائے گا۔ ہمارے دوسرے ساتھی یونس ڈھاکا والا لیاقت آباد میں بانٹوا نگر میں رہتے تھے۔ بنگلا دیش بننے کے بعد یہ کافی عرصے ڈھاکا میں رہے اس لیے ان کے نام کے ساتھ ڈھاکا والا کا لاحقہ لگ گیا تین چار سال قبل بنگلا دیش میں وہاں کی جماعت پر جو آزمائشیں گزری ہیں یہ اس پر بہت فکر مند رہتے تھے اور وہاں پر اپنے تعلقات والوں اور کارکنوں سے رابطہ کرکے صورتحال سے یہاں جماعت کے کارکنوں کو آگاہی دیتے تھے، پہلے سے بیمار تھے اس لیے کورونا سے نہیں بلکہ اپنی دیگر بیماریوں سے ان کا انتقال ہو گیا۔ ہماری دعا ہے اللہ تعالی ان دونوں ارکان جماعت کی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ آمین