اسلام آباد (خبر ایجنسیاں) عدالت عظمیٰ نے نجی ادویہ ساز کمپنی کی جانب سے قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ ملک میں ادویات سازوں کا بہت بڑا مافیا ہے لیکن حکومت صرف کاغذی کارروائی کرتی ہے اورفیصلہ کرنے کی ہمت نہیں‘ حکومت خود کچھ کرتی نہیں فیصلے کرنے کے لیے معاملہ عدالت کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس
نے استفسار کیا کہ وفاقی کابینہ نے ادویات کی قیمتوں سے متعلق کوئی فیصلہ کیا؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ معاملہ کابینہ نہیں ٹاسک فورس کو بھیجا گیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے ٹاسک فورس فیصلہ کرنے کے بجائے معاملے پر بیٹھ ہی گئی ہے‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ادویات ساز کمپنیاں ہوں یا خریدار سب ہی غیر یقینی صورتحال میں رہتے ہیں‘ ادویہ ساز کمپنیاں خام مال خریداری کے نام پر سارا منافع باہر بھیج دیتی ہیں‘افسوس ہوتا ہے کہ حکومت کوئی کام نہیں کر رہی‘ ڈریپ کہتی ہے مٹھی گرم کرو توسارا کام ہوجائے گا‘ حکومت خود فیصلہ کرتی نہیں اور ہائی کورٹ کے فیصلے چیلنج کرتی ہے۔ علاوہ ازیںعدالت عظمیٰ نے کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی 25 جون 2020ء کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ جمعے کو عدالت عظمیٰ سے جاری تحریری حکمنامہ میں بتایا گیا ہے کہ این ڈی ایم اے کی رپورٹ میں تفصیلات تسلی بخش نہیں ہیں‘ کورونا وائرس کے علاج کے لیے بین الاقوامی سطح پر استعمال ہونے والی ادویات کا پتہ لگایا جائے‘ کورونا وائرس سے بچائو کے لیے حفاظتی سامان مہنگے داموں فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ تحریری حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی ایوان میں وفاقی وزیر ہوابازی کے پائلٹس کی جعلی ڈگری کا بیان سن کر تشویش ہوئی، مسافروں کی جان خطرے میں ڈالنا سنگین جرم ہے‘ پائلٹس کے لائسنس اور ڈگریوں سے متعلق وضاحت کے لیے ڈی جی سول ایوی ایشن آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں۔