مسعود انور
کورونا گزشتہ نومبر میں دنیا میں پھیلنا شروع ہوا اور اسے مارچ میں عالمی وبا قرار دے دیا گیا۔ پاکستان میں پہلے کیس کی نشاندہی 26 فروری کو ہوئی۔ اس دن سے لے کر آج تک ملک میں خوف کا ماحول پیدا کردیا گیا۔ خوف کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک عام شہری کورونا کا ٹیسٹ کروانے اور اس کا علاج کروانے سے خوفزدہ ہے۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کورونا کا ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں لوگ خودکشی تک کررہے ہیں۔ کورونا کے مریضوں کے نام پر اب تک ملک میں پانچ سو ارب روپے کی رقم مجموعی طور پر خرچ کی جاچکی ہے جبکہ صرف وفاقی بجٹ میں کورونا کے لیے 1200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ صوبوں کی جانب سے اس کے علاوہ سیکڑوں ارب روپے الگ سے مختص کیے گئے ہیں۔ کورونا کے مریضوں کو فراہم کردہ سہولتوں کی صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ نہ تو کہیں پر کوئی نیا اسپتال بنایا گیا اور نہ ہی کسی بھی اسپتال میں موجودہ سہولتوں میں کوئی اضافہ کیا گیا۔ پاکستان میں پہلے ہی صحت کی سہولتیں ناگفتہ بہ اور ناکافی ہیں۔ دل کے اسپتال سے لے کر بچوں کے اسپتال تک عام دنوں ہی میں کوئی چلا جائے تو مریضوں کو داخلے کے لیے بستر دستیاب نہیں ہوتا تھا۔ آپریشن کے لیے کئی مہینوں بعد کی تاریخ ملتی تھی۔ وینٹی لیٹر کا تو پہلے بھی کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا۔ اب کورونا کے مریضوں کا اضافہ ہوا تو کہا گیا کہ مریضوں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوچکا ہے کہ سارے اسپتال بھر گئے ہیں جبکہ عملی صورتحال یہ رہی کہ یہ سارے اسپتال پہلے ہی سے بھرے ہوئے ہیں۔ فنڈز کھانے کی اس بہتی گنگا میں سب ہی نے خوب ہاتھ دھوئے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر کراچی میں آصف زرداری کے دوست ڈاکٹر عاصم حسین کے ضیاء الدین اسپتال کو دو سو مریضوں کے علاج کے لیے کروڑوں روپے ایڈوانس میں ادا کردیے گئے۔ دیگر اسپتالوں کو اس مد میں ادا کیے جانے والے دسیوں ارب روپے اس کے علاوہ ہیں۔ فنڈز کھانے کے نام پر اسکولوں اور کالجوں میں کاغذات پر گھوسٹ قرنطینہ مراکز قائم کردیے گئے۔ ان قرنطینہ مراکز کی صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی ایکسپو میں قائم کردہ آرمی قرنطینہ مرکز پہلے ایک ہزار بستروں پر مشتمل تھا، اسے اب بڑھا کر 1500 بستروں کا کردیا گیا ہے جبکہ عملی طور پر یہاں مریضوں کی تعداد ایک مرتبہ بھی دو سو سے زاید نہیں ہوئی۔ پی اے ایف میوزیم میں پانچ سو بستروں کا قرنطینہ مرکز قائم کیا گیا ہے، جس میں ایک مریض بھی داخل نہیں ہے۔ سہولتوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایکسپو کے آرمی قرنطینہ مرکز میں کھانا بھی خیراتی تنظیمیں مہیا کررہی ہیں۔
یہ تو ایک عمومی صورتحال ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے اور کورونا کے ٹیسٹ کرنے کی استعداد میں اضافہ ہورہا ہے، اس کے ساتھ ہی کورونا کے مریضوں میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ کورونا کے مریض تو بڑی تعداد میں ہیں، چونکہ ان کا ٹیسٹ نہیں ہورہا تھا اس لیے ان کی نشاندہی نہیں ہوسکی تھی۔ اب ٹیسٹ ہورہے ہیں تو ان کی نشاندہی ہورہی ہے۔ جیسے جیسے ٹیسٹ کرنے کی استعداد میں مزید اضافہ ہوگا، ویسے ویسے ان مریضوں کی تعداد میں بھی ہولناک اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ سرکار کے مطابق 15 جولائی تک پاکستان میں کورونا ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت ایک لاکھ ٹیسٹ یومیہ ہوجائے گی۔ اگر ٹیسٹ کے تناسب سے مریضوں کی تعداد نکالی جائے تو یہ بیس تا پچیس فی صد کے قریب ہے۔ اگر بیس فی صد ہی کو بنیادی عدد مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ یومیہ بیس ہزار مریضوں کا اضافہ۔ 31 اگست تک 48 دن بنتے ہیں۔ ان 48 دنوں میں 20 ہزار مریض یومیہ کے حساب سے 31 اگست کی شب تک ملک میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں 9 لاکھ 60 ہزار مریضوں کا اضافہ ہوچکا ہوگا۔ اب تک کورونا کے مریضوں میں اموات کی شرح 2 فی صد ہے، اس لحاظ سے مرنے والوں کی تعداد کا تخمینہ 9 ہزار 2 سو آتا ہے یعنی چارسو مریض روزانہ کورونا کی وجہ سے موت کا شکار ہوں گے۔ یہ وہ حساب ہے جو کوئی بھی کرسکتا ہے۔
کیا واقعی ایسا ہے کہ ملک میں کورونا کے مریض خاموشی سے کہیں پر دبکے ہوئے ہیں اور ان کی نشاندہی نہیں ہوپارہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اب تک پورا ملک کورونا کے مرض میں مبتلا ہوچکا ہوتا۔ کیوں کہ ان مریضوں کی نشاندہی نہیں ہوئی ہے اور یہ Free Satellite کے طور پر آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں، تو یہ آسانی سے دیگر صحت مند افراد کو بھی اس بیماری کا شکار کرسکتے ہیں مگر عملی طور پر ایسا ہے نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اب تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کورونا کے تشخیص شدہ مریضوں میں اموات کی شرح 2 فی صد ہے تو ان غیر تشخیص شدہ مریضوں کی تعداد بھی کم از کم اس شرح سے تو موت کا شکار ہوتی مگر ایسا بھی نہیں ہے بلکہ قبرستانوں سے جمع کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ چار ماہ میں تدفین میں معمول کے مقابلے میں کمی آئی ہے۔
کورونا کے بارے میں ایک بات پر اور غور کیجیے کہ اب تک ایک خاص طبقہ اس کا شکار ہورہا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو خوشحال ہے اور انتہائی حساس بھی ہے۔ یہ N95 ماسک بھی استعمال کرتا ہے اور عالمی ادارہ صحت کی ہر SOP پر انتہا سے زیادہ عمل بھی کرتا ہے، پھر بھی یہ طبقہ کورونا کا بھی شکار ہورہا ہے اور کورونا سے ہونے والی موت کا بھی۔ پاکستان کا عام مزدور طبقہ جو خط غربت کے آس پاس زندگی گزارتا ہے، وہ عالمی ادارہ صحت کی کسی ہدایت پر چاہے بھی تو اس کے لیے عمل کرنا ممکن نہیں ہے، وہ پہلے دن سے اپنی زندگی معمول کے مطابق گزار رہا ہے۔ ان افراد میں کورونا کا کوئی گزر نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ان افراد کا جسمانی مدافعتی نظام بہت طاقتور ہے۔ مگر اسی کم آمدنی والے طبقے میں پولیو، ٹائیفائیڈ اور یرقان عام ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ان بیماریوں کے وائرس بھی اس کم آمدنی والے طبقے کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گڑ بڑ کہیں اور ہے۔ یہ گڑ بڑ کیا ہے، اس کا جواب آئندہ کالم میں بوجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔