الطاف حسین کمال سے پاتال تک

892

عارف بہار
الطاف حسین پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک عبرت ناک باب بنتے جا رہے ہیں۔ ایک ایسا شخص جسے وقت نے شہرت اور طاقت کے اوج کمال تک پہنچایا مگر یہ عروج اور کمال الطاف حسین کو کبھی ہضم نہیں ہوا۔ وہ طاقت کے راستوں پر بگٹٹ دوڑتا ہوا اتنا دور چلا گیا کہ اس جادو نگری میں پہنچ گیا جہاں پیچھے مڑ کر دیکھنے والا پتھر ہو کر رہ جاتا ہے۔ الطاف حسین کے دست راست اور وارداتوں کے ساتھی محمد انور نے لندن میں ایک تہلکہ خیز انٹرویو دیا ہے جس میں محمد انور نے تسلیم کیا ہے کہ ایم کیو ایم اور بھارت کے درمیان فنڈز کی فراہمی کا معاہدہ تھا جس کے تحت بھارت ایم کیو ایم کو رقم دیتا تھا۔ یہ معاہدہ کرنے والوں میں محمد انور شامل تھے۔ محمد انور کا یہ اعتراف عین اس وقت سامنے آیا ہے جب لندن میں قتل کیے جانے والے ایم کیو ایم کے راہنما عمران فاروق کے مقدمے میں اسلام آباد کی عدالت کا تفصیلی فیصلہ سنایا گیا جس میں قتل میں شریک مجرموں کو عمر قید اور جرمانے کی سزا ہوئی جبکہ الطاف حسین اور محمد انور سمیت کئی افراد کو مفرور قرار دیا گیا ہے۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ عمران فاروق کا قتل براہ راست الطاف حسین کے حکم پر ہوا۔ یہ قتل کی وہی واردات ہے جس پر الطاف حسین نے رورو کر اپنا حال برا کر دیا تھا اور میڈیا نے اہتمام کے ساتھ ان کی اس چیخ وپکار اور آہ وزاری کو نشر کیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ مقتول کا الطاف حسین سے بڑا ہمدرد اور غم خوار ہی کوئی نہ ہو۔ الطاف حسین نے غم سے نڈھال ہونے کی جو کامیاب اداکاری اس وقت کی تھی اس پر بلاشبہ وہ ’’آسکر ایوارڈ‘‘ کے مستحق قرار پاتے۔ الطاف حسین نے اس اداکاری کو ایم کیو ایم کا کلچر بنا ڈالا تھا۔ ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلر جب کراچی میں کسی بے گناہ سیاسی حریف، تاجر، صحافی، سرکاری ملازم کا قتل کرتے تو لاش گھر پہنچنے سے پہلے ہی ماتم کدے میں پہنچ کر قناتیں لگاتے، دریاں بچھاتے، تعزیت کے لیے آنے والوں کا استقبال کرتے۔ مقتول کے اہل خانہ قاتلوں کو یہ اداکاری کرتے دیکھتے مگر لب کشائی کی جرأت نہ کر سکتے کیونکہ الطاف حسین کی دہشت نے ایک معاشرے کو اپنی ’’اینا کونڈا‘‘ کی طرح اپنے حصار ہی میں نہیں بلکہ دبوچ رکھا تھا۔ مرنے والے کے لوٹ کے نہ آنے کی حقیقت کا ادراک اور زندوں کے تحفظ کا احساس انہیں مہر بہ لب اور اپنی چیخوں کو سینوں میں دبائے رکھنے پر مجبور کرتا تھا۔ کمال جب توازن میں نہ رہے تو یہی عدم توازن زوال کا نقطہ ٔ آغاز اور جواز بنتا ہے۔
حقیقت میں الطاف حسین اپنے عروج ہی میں زوال کا جشن مناتے رہے۔ ان کا عروج، بلندی، شہرت، دولت اور اثر رسوخ افراد تو کیا حکومتوں اور طاقتور ریاستی اداروں کے اعصاب شل کیے رکھتا تھا۔ حکومت بنانی ہوتی یا بچانی وقت کے حکمران الطاف حسین کے سیاسی مرقد اور آستانے ’’نائن زیرو کا طواف کرنے اور وہاں آویزں ان کی قد آدم تصویر کے سائے تلے منت سماجت کرنے پر مجبور تھے۔ وہ طاقت کے نشے میں کسی بے گناہ کی جان لیتے یا کسی سے بھتا وصول کرتے توان کا عروج ہی زوال کی کہانی لکھ رہا ہوتا۔ اس ملک کے بہترین شہ دماغوں کی ایک طویل قطار ہے جو الطاف حسین کی خونیں سیاست کی بھینٹ چڑھتے چلے گئے۔ محمد انور کا اعتراف بتاتا ہے کہ الطاف حسین کے پتھر ہوجانے اور پتھر دل بن جانے کا آغاز نوے کی دہائی کے اوائل میں اسی وقت ہو گیا تھا جب لندن میں بھارتی سفارت خانے کے ساتھ الطاف حسین کا رابطہ اور ایک خاموش معاہدہ ہوا تھا اور پھر کمال سے لڑھکنے کا جو عمل شروع ہوا اس نے انہیں پاتال کی راہوں کا مستقل مسافر بنا دیا۔ اس معاہدے نے الطاف حسین کی سفاکی اور وحشت کو بڑھا دیا تھا کیونکہ اب ان کا کوئی بھی قدم اپنے طور پر نہیں اُٹھتا تھا اس میں فنانسر کی خواہش اور ہدایت کا دخل ہوتا تھا۔
الطاف حسین کی اصل شبیہ دکھانے کے جرم کا سزاوار جو بھی ٹھیرا جان سے گزر گیا۔ سیاسی کارکن، پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکار، صحافی کون ہے جو اس جرم بے گناہی کا شکار ہو کر زندگی سے محروم نہیں ہوا۔ ایک طویل فہرست ان بے تقصیر لوگوں کی ہے جو الطاف حسین کی پیاس بجھانے کا شکار ہوئے۔ محمد انور ہی نہیں الطاف حسین کے بے شمار ہاتھ اور پائوں ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر سامنے آئے ہیں۔ ان کے ٹارگٹ کلرز کی پوری بٹالین ریاستی اداروں کے ہاتھ میں ہے جو اپنی آپ بیتیاں سناچکے بلکہ ریکارڈ کراچکے ہیں۔ آج الطاف حسین اپنی زندگی میں وہ دن دیکھ رہے ہیں کہ ان کی بے مقصد تقریروں پر جی بھائی جی بھائی کہنے والے اب ان سے دامن چھڑا رہے ہیں۔ ان کے اشارہ ابرو پر بند ہوجانے والا شہر اب ان سے لاتعلق ہوکر رہ گیا ہے۔ ان کی پرستش کرنے والے انہیں ’’سیاسی کورونا‘‘ سمجھ کر دامن بچاتے اور نظریں چراتے پھر رہے ہیں۔ الطاف حسین نے ہٹلر اور مسولینی کی طرز پر جو جماعت تشکیل دی تھی اب ڈسپلن کی رسیاں توڑ کر ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے۔ الطاف حسین کے لیے جس مقصد کے لیے سرمایہ کاری کی جارہی تھی اس کی اس حد تک تو تکمیل ہو رہی تھی کہ کراچی اور حیدرآباد جیسے شہر خوف اور دہشت کا شکار تھے۔ بھتا خوری اور لاقانونیت کی زد میں تھے۔ ریاست یہاں منہ چھپاتی پھر رہی تھی اور اس کی طاقت ایم کیو ایم استعمال کر رہی تھی۔ دوسرا اور اہم مقصد کسی فیصلہ کن مرحلے پر ایم کیو ایم کا پوری قوت کے ساتھ اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالنا تھا۔ آج کے دن شاید اس کے لیے مناسب اور موزوں تھے۔ وقت نے الطاف حسین کو اس وقت کے آنے سے پہلے ہی سڑھی ہوئی سبزی بنا کر رکھ دیا ہے۔ ریاست پاکستان نے اس پیچیدہ اور تہہ در تہہ دہشت گردی کو کنٹرول کرکے ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ابھی اس طرح کی کئی اور کامیابیاں حاصل کرنا باقی ہیں کیونکہ کراچی کی طرح پاکستان کے کئی علاقوں میں مسائل اور جرائم گڈ مڈ ہو کر رہ گئے ہیں۔