اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے عدلیہ ،سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت دیگر ججز کے خلاف ویڈیو میں تضحیک آمیززبان استعمال کرنے کا نوٹس لے کر کیس آج (جمعہ کو )سماعت کےلیے مقرر کردیا ہے۔ ترجمان سپریم کورٹ کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس نے سوشل میڈیا پر وائر ہونے والی ویڈیو کا از خود نوٹس لیا ہے جس میں افتخارالدین عدالت عظمی کے ججز اورجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام لے کر ہتک آمیز زبان استعمال کررہے ہیں۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کرے گا۔ اس معاملہ کو آج (جمعہ کو ) سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا ہے اور عدالت کی جانب سے اٹارنی جنرل سمیت متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ اس ویڈیو میں عدلیہ ، ججز اورجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام لے کر تضحیک آمیز زبان استعمال کی گئی ہے، سینئر سیاستدانوں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور سینئر صحافی و اینکر حامد میر اور محمد مالک کی تصاویر بھی شامل کرکے ان کے خلاف بھی ہتک آمیز زبان استعمال کی گئی ہے ۔دوسری جانب سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اہلخانہ کو قتل کی دھمکیوں کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی درخواست اسلام آباد پولیس نے اختیارات سے باہر قرار دے کر ایف آئی اے کو بھیج دی۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے پولیس کو آگاہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کی زندگی خطرے میں ہے کیونکہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ انہوں نے پولیس سے اپنے اہلخانہ کو دھمکیاں دینے اور ہراساں کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی درخواست پر پولیس نے کہا کہ یہ معاملہ پولیس کے اختیارات میں نہیں آتا اس لیے درخواست ایف آئی اے کو بھیجی جا رہی ہے۔ سرینہ عیسیٰ کی جانب سے پولیس کو دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک جج کو قتل کی دھمکیاں دینا دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔اپنی درخواست میں انھوں نے حال ہی میں انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کا حوالہ دیا ہے جس میں ایک خطیب نے کہا تھا کہ جو شخص بھی ملک میں بدعنوانی یا غبن میں ملوث پایا جائے، چاہے وہ نواز شریف ہو، آصف زرداری ہو، یا جسٹس فائز عیسیٰ ہو، انھیں سیدھا فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جائے۔جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینہ عیسیٰ نے پولیس کو دی گئی اپنی درخواست کے ساتھ یہ ویڈیو بھی منسلک کی ہے۔مقامی پولیس کے مطابق اس درخواست پر قانونی رائے لینے کے لیے اسے پولیس کی لیگل برانچ کو بھجوایا گیا تھا۔