تہران (انٹرنیشنل ڈیسک) ایران کے رہبر اعلیٰ خامنہ ای کے عسکری مشیر اور سابق وزیر دفاع حسین دہقان نے کہا ہے کہ اگر سعودی عرب قبول کرنے تو ایران غیرمشروط مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ حسین دہقان نے الجزیرہ ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ متحدہ عرب امارات سے ہمارے تعلقات بہتر ہوئے ہیں اور ہمارا موقف ابوظبی سے متعلق بدل گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ریاض حکومت بھی اگر قبول کر لے تو ایران اس کے ساتھ بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ دہقان نے مزید کہا کہ یمن کی جنگ میں سعودی عرب اپنی شکست قبول کرتے ہوئے ایک نئی پالیسی وضع کرے۔ جنرل دہقان نے اس بات پر زوردیا کہ وہ جو کچھ یمن میں ہورہا ہے، یہ ایک فضول عسکری انتشار ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے یمن کے صدر عبدربہ منصور ہادی کی وطن واپسی اور ان کی حکومت کی بحالی کے لیے امریکا اور کئی مغربی وعرب ممالک کے اتحاد سے 2015ء سے یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کررکھی ہے۔ اس لڑائی کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ یمنی شہری مارے جاچکے ہیں اور اقوام متحدہ کے مطابق اس ملک میں قحط دنیا کی سب سے بڑی انسانی تباہی بن چکا ہے۔ جنرل دہقان نے مزید کہا کہ ہم کسی بھی صورت حال میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات نہیں کریں گے، کیوں کہ ان کو صدر نہیں، بلکہ مجرم سمجھتے ہیں۔ جنرل دہقان نے کہا کہ ایران اپنے میزائل پروگرام اور علاقائی پالیسیوں سے بھی مذاکرات نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ خلیج فارس میں امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف ہر کسی مہم جوئی کا منہ ٹور جواب دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ امریکا 2018ء میں اس جوہری معاہدے سے الگ ہوگیا تھا، جو ایران اور 6 مغربی ممالک کے درمیان طے پایا تھا۔ اس کا مقصد ایران کی جوہری سرگرمیاں محدود کرکے اس پر سے پابندیاں اٹھانا تھا۔ امریکا کی معاہدے سے علاحدگی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر عروج پر پہنچ چکی ہے۔ پھر رواں سال عراق میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت سے غیرمعمولی تناؤ دیکھنے میں آرہا ہے۔ لیبیا میں باغی حفتر ملیشیا کی حمایت پر مبنی دعووں کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے حسین دہقان نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کی جانب سے لیبیا کی عالمی تسلیم شدہ حکومت کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ لیبیا میں تمام فریق اس خانہ جنگی کا سیاسی حل تلاش کریں۔ یاد رہے کہ شمالی بحر اوقیانوس کے دفاعی اتحاد نیٹو کی افواج کی مداخلت سے 2011ء میں لیبیا کے فوجی صدر معمر قذافی کا اقتدار ختم کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہے۔